منجور نامنجور کی پہلی منزل طے

”منجور نامنجور ”کی پہلی منزل طے

(سید فخرکاکاخیل)پچھلا ہفتہ بھی تحریک انصاف کے گرد گھومتے گزرا۔ معلوم نہیں پی ڈی ایم اور اداروں کو یہ سمجھنے میں وقت کیوں لگ رہا ہے کہ Democracy اور Popularism میں کافی فرق ہے۔ دونوں کی طاقت عوام ہے۔ ایک میں مختلف الخیال لوگوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن دوسری صورت میں عوامی مقبولیت کا نعرہ لگا کر ایک ہی لیڈر کے پیچھے عوام کو ہانک دیا جاتا ہے۔ عوامی نعرے جیسے کرپشن کا خاتمہ، تھانہ کچہری کلچر کا خاتمہ، مفت علاج، مفت بجلی، کروڑوں نوکریاں، لاکھوں مفت گھر یعنی بس انقلاب لایا جائے گا۔ پسماندہ اور گھٹن زدہ معاشرے میں پاپولرازم کی سیاست ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔گو کہ ترقیافتہ ممالک میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں لیکن کامیابی کے بعد ریاستوں کے لیے ان کے نقصانات کو دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ فوائد سے نقصانات زیادہ تھے۔ امریکہ میں ٹرمپ، ہندوستان میں مودی اور پاکستان میں عمران خان تینوں تجربوں کے نتائج کچھ زیادہ خوشگوار نہیں نکلے۔پاپولرازم نعروں کی حد تک ووٹ کھنچنے کے لیے خصوصاً جذباتی نوجوان اور مایوس عوام کے لیے وقتی طور پر تو بہترین ہے لیکن اگر اس میں پوچھا جائے کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ جہاں اس سوال کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں اس سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی وہ لیڈر پاپولر فیصلے کرتا ہے جس کی کوئی منطق نہیں ہوتی اور جس کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک آسان سی مثال بی آر ٹی اور صحت کارڈ ہے۔عوامی مزاج کے لیے یہ بہترین پاپولر فیصلے ہیں لیکن یہ دیکھا جائے کہ ان فیصلوں اور منصوبوں سے خزانے پر کتنا بوجھ پڑااور جب عوام کو یہ بتایا جائے گا کہ ان منصوبوں کی آپ کی جیب پر اثرات کیا ہوں گے تو عوام سڑکوں پر ہوگی۔ ظاہری بات ہے کہ ان قرضوں کی واپسی سابق وزرائے اعلیٰ پرویزخٹک اور محمود خان یا وزیرصحت تیمور جھگڑا نے تو نہیں کرنی۔ یہ پیسے عوام کی جیب سے کاٹے جائیں گے۔ اب یہ کیسے کاٹے جائیں گے اس کے لیے بھاری ٹیکس لاگو ہوں گے۔ جب عوام کو یہ معلوم ہوگا کہ ان کی آڑ میں اربوں روپے لوٹ کر اب ان کو سودخوروں کے آگے ڈال دیا گیا ہے کہ سود سمیت ان سے اپنے قرضے وصول کرو تب عوام یقیناً ان منصوبوں پر لعنت بھیجیں گے۔جمہوریت میں جہاں سوال ہوتے ہیں وہاں جواب بھی مختلف آتے ہیں اور ان جوابوں کی روشنی میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اب اس پر سوچ کر بیانیہ بنایا جائے تو شاید قوم اس ہیجان سے نکل سکے جس بھنور میں قوم پھنسی ہے۔
صوبے میں بالآخر جمع تفریق، منجور نامنجور کا سلسلہ ایک پڑاؤ طے کرچکا ہے۔ صوبے میں انتظامی افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کر دی گئی ہے۔یہ ایک روایت ہے کہ جو بھی نیا سیٹ اپ بنتا ہے تو اس کی سربراہی کرنے والے "اکھاڑپچھاڑ” سے آغاز کرتے ہیں تاکہ تھرتھلی مچے اور بستی والے سمجھ جائیں کہ نئے صاحب بہادر پدھارے ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت نے 5 ڈویڑنل کمشنر ز اور 4ڈپٹی کمشنرز کو اسٹیبلشمنٹ رپورٹ کرنے کا حکم دے کر تمام کمشنرز اور 28اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز تبدیل کر دئیے ہیں۔ محکمہ اسٹیبلشمنٹ نے 61افسروں کی تقرری اور تعیناتیوں کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق کمشنر بنوں مطیع اللہ خان، کمشنر ملاکنڈ ثاقب رضا اسلم، کمشنر کوہاٹ محمود اسلم ، کمشنر مردان سید عبدالجبار ، کمشنر پشاور ریاض خان محسود، ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ شاہد خان ، ڈپٹی کمشنر ہری پور محمد فواد ، ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان اور ڈپٹی کمشنر بونیر شاہد علی کو اسٹیبلشمنٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی بھی کیا کہیئے یوں ہی تو وہ اس ملک پر بلاشرکت غیرے راج نہیں کر رہی ہے۔ ملٹری بیورکریسی تو پھر بھی گاہے بگاہے نظروں میں آ جاتی ہے لیکن سول بیورکریسی کا انداز نرالا ہے۔ مطلب پی ٹی آئی کے جتنے بھی "سلطانی گواہ” تھے سب کو فوراً "محفوظ راستہ” دیتے ہوئے گھر پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔ اب نئے مکین آ گئے ہیں۔ اگر جے یو آئی کا یہ خیال ہے کہ نئے لگائے جانے والے افسران اپنے پیٹی بند بھائیوں کے کارناموں کا پردہ فاش کرکے سول بیوروکریسی میں تحریک انصاف کی لازوال محبت کو کم کر دیں گے تو ان کو کسی اچھے سے سیاسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔کیونکہ یہ سول بیوروکریٹ بخوبی جانتے ہیں کہ "ساس بھی کبھی بہو تھی” کی طرح یہ جانے والے بھی ان کی طرح بہو بن کر آئے تھے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب وہ ساس بن چکے ہیں۔ ایک دن نئی بہو آئے گی اور وہ ساس بن جائیں گے۔
گریڈ 20کے محمد زبیر کو کمشنر پشاور، یوسف رحیم کو کمشنر مردان، عامر سلطان ترین کمشنر ہزارہ، شاہد علی یوسفزئی کو کمشنر کوہاٹ، شاہد اللہ کو کمشنر ملاکنڈ، پرویز کو کمشنر بنوں ، عامر آفاق کو سیکرٹری داخلہ جبکہ نثار احمد کو کمشنر ڈی آئی خان تعینات کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح ایک اور اعلامیہ کے مطابق خالد اقبال کو ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد، طارق اسلام کو ایڈیشنل سیکرٹری انتظامیہ، محمد عرفان اللہ محسود کو ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، محمد خالد زمان کو ڈپٹی کمشنر اپر چترا ل ، فہد وزیر کو پراجیکٹ ڈائریکٹر اپر ، لوئر دیر اور کالام میں لینڈ ریکارڈ، اکمل خان کو ایڈیشنل سیکرٹری ترقی و منصوبہ بندی، افتخار احمد کو ڈپٹی کمشنر لوئر دیر، محمد طیب عبداللہ کو ڈپٹی کمشنر اورکزئی، محمد رفیق خان کو ڈپٹی کمشنر لوئر کوہستان، نیک محمد کی خدمات ریونیو اتھارٹی کے سپرد، محمد آصف کو ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات، خالد اقبال کو ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات، محمد کبیر آفریدی کو ڈپٹی کمشنر نوشہرہ ، شفیع اللہ کو ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات، عبدالناصر کو ڈپٹی کمشنر خیبر، تاشفین حیدر کو ڈپٹی کمشنر بنوں، عرفان اللہ خان کو ڈپٹی کمشنر سوات، سید سیف الاسلام کو ڈپٹی کمشنر کرم، محمد مسعود کو سپیشل سیکرٹری بلدیات، محمد آصف رشید کی خدمات ترقی و منصوبہ بندی کے سپرد، تنویر الرحمن کو ڈپٹی کمشنر بٹگرام، محمد علی خان کو ڈپٹی کمشنر لوئر چترال، ارشد قیوم برکی کو ڈپٹی کمشنر بونیر، گوہر زمان وزیر کو ڈپٹی کمشنر اپر دیر، محمد زبیر نیازی کو ڈپٹی کمشنر باجوڑ ، عدنان فرید کو ڈپٹی کمشنر لکی مروت، فضل اکبر کو ڈپٹی کمشنر ہنگو، عرفان اللہ محسود کو ڈپٹی کمشنر اپر کوہستان، شاہ فہد کو ڈپٹی کمشنر پشاور، عون حیدر کو ڈپٹی کمشنر ہری پور، واصل خان کو ڈائریکٹر سماجی بہبود، فرقان اشرف کو ڈپٹی کمشنر صوابی، نصر اللہ کو ایڈیشنل سیکرٹری وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ، عظمت اللہ کو ڈپٹی کمشنر کو ہاٹ، قاسم علی خان کو ایڈیشنل سیکرٹری توانائی، عبدالہادی کو ڈپٹی کمشنر چارسدہ، حامد علی کی خدمات ترقی و منصوبہ بندی کے سپرد، حکمت اللہ کو ڈپٹی کمشنر کولائی پالس، شہاب محمد خان کو ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ، محمد احتشام الحق کو ڈپٹی کمشنر مہمند، عارف اللہ اعوان کو ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ، حسن عابد کو ڈپٹی کمشنر شانگلہ، انور زیب کو ڈپٹی سیکرٹری خزانہ اور ضیاالرحمن کو ڈپٹی کمشنر تور غر تعینات کر دیا گیا۔.
اس اکھاڑ پچھاڑ سے ہونا کچھ نہیں ہے۔ جو اچھے فرض شناس افسر ہوں گے کیا وہ نئے عارضی حکمرانوں کی مانیں گے۔ نہیں، ہر گز نہیں ریکارڈ چیک کریں یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے تحریک انصاف کی بھی نہیں مانی تھی اس لیے کھڈے لائن لگائے گئے تھے اور جو مانیں گے وہ ان کی اس طرح مانیں گے کہ جس طرح تحریک انصاف کی مانتے تھے اور جو "یس باس” کہہ کر ہر حکمران کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔
کابینہ میں چارمزید نئے ناموں کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔سید جرار حسین بخاری کو محکمہ بہبود آبادی، ظفر محمود کو سیاحت وثقافت، رحمت سلام خٹک کو تعلیم جبکہ ڈاکٹر عابد جمیل کو صحت کا شعبہ سونپا گیا ہے۔ جہاں تک بہبود آبادی اور سیاحت وثقافت کا تعلق ہے تو اس میں بھی ڈھونڈنے والوں کو بہت کچھ مل سکتا ہے لیکن اصل وزارتیں صحت وتعلیم کی ہیں۔ رحمت سلام خٹک کا پس منظر سیاسی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے بعد جمیعت علماء اسلام میں ہی انہوں نے اپنا سیاسی ڈیرہ جمائے رکھا۔ امید تو ہے کہ محکمہ تعلیم کو مزید بربادی سے بچا لیں گے۔ لیکن ان کے پہلے قدم سے ہی ان کی ترجیحات کا پتا لگے گا۔ اگر انہوں نے محکمہ تعلیم میں اربوں روپے کے انفراسٹرکچر، فرنیچر، بھرتیوں وغیرہ کے سکینڈلز پر ہاتھ ڈالا تو نہ صرف ملکی سطح پر ہیڈلائینز بنا سکتے ہیں بلکہ عبوری دور میں صوبائی خزانے کو اچھی خاصی کمائی بھی لے کر دے سکتے ہیں۔ اگر وہ ای ڈی اوز، سیکرٹریٹ کی باتوں میں آگئے تو وقت کب گزر گیا انہیں پتا بھی نہیں چلے گا اور صرف اپنی ہی سی وی میں ایک لائن کا اضافہ کرکے چلے جائیں گے۔ ان کی اگلی منزل سینیٹرشپ ہے اس لیئے ان کو ابھی سے سوچ لینا چاہیئے۔
دوسری طرف شعبہ صحت میں ڈاکٹر عابد جمیل آ گئے ہیں۔ بطور آن کالوجسٹ ان کی اچھی شہرت ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کا شمار صوبے کے ان ڈاکٹروں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے رشتہ دار اور پختونخوا محکمہ صحت کے کرتا دھرتا نوشیروان برکی کی اس گنگا میں ہاتھ دھونے سے انکار کیا جس سے صوبے کے ہسپتال قبرستان بن گئے اور صوبے کے قبرستانوں میں مافیاز نے نجی ہسپتال بنا لیے۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایم ٹی آئی پر قانونی ٹاسک فورس بنا کر اس بلے کی لائی گئی اس بلا کو سب سے پہلے تو نیوٹرالائزڈ کریں۔ کسی نہ کسی طریقہ سے ایم ٹی آئی آڈٹ اور ریکوری سیل پر زور دیں۔ اس کام میں روزانہ بنیادوں پر دونوں یعنی صحت اور تعلیم کے دونوں وزراء کو وزیر اعلیٰ کے پاس بیٹھ کر صوبے کے معاملات کو معمول پر لانا ہوگا۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔
جہاں تک انتخابات کی بات ہے لگ بھگ تمام ہارٹیوں نے صوبہ بھر کے حلقوں کے لیے امیدواروں کا چناؤ شروع کر دیا ہے۔ لیکن ملک کی معاشی بدحالی اور امن وامان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر روز ممکنہ انتخابات کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے عوامی حلقوں میں یہ سوچا جا رہا ہے کہ کیا یہ عبوری سیٹ اپ طوالت تو اختیار نہیں کرنے جا رہا ہے۔ مملکت خداد میں کچھ بھی کہیں بھی کبھی بھی ممکن ہے۔ ایک بازگشت جو پختونخوا کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے کہ صوبے میں جمیعت علماء اسلام کو اس طرح کھل کر کھیلنے کا موقع کیوں دیا جا رہا ہے۔ اس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ وفاق کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف نے دس سالوں میں صوبے میں جو کچھ کیا اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے دشمنی کی حد تک صرف ایک ہی سیاسی جماعت یہ کام کر سکتی ہے اور وہ ہے جمیعت علماء اسلام۔ لیکن یہاں پھر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اب تک جمیعت علماء اسلام نے صوبے کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کیا کیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جو کام تحریک انصاف والے کر رہے تھے اب جمیعت علماء اسلام بھی وہی کر رہے ہیں ۔ سابق وزیر صحت و منصوبہ بندی و خزانہ تیمور جھگڑا انہیں کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں۔ اکیلے سوشل میڈیا پر ان کی ایسی کی تیسی کر رہے ہیں اور عوامی پذیرائی ویسے ہی سمیٹ رہے ہیں کہ جیسے وہ کرتے رہے ہیں یعنی پاپولرازم کی سیاست جو جمیعت علماء اسلام کی اپنی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت سہے۔ موجودہ حکومت کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ سچ بولنے میں جتنی دیر لگائیں گے جھوٹ ان کے گاؤں کو برباد کرکے رکھ دے گا۔ اس لیے ایک دس سالہ وہائٹ پیپر کا اجراء اور اس بربادی پر کارروائیاں عوام کو دکھانے کے علاوہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ عوام کو بتایا جائے کہ 2013ء میں صوبہ کس حالت میں تحریک انصاف کے حوالے کیا گیا تھا اور ان دس سالوں میں کیا ہوتا رہا۔ اب دس سال بعد یہ صوبہ کس حالت میں نگران حکومت کے حوالے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس بربادی کے اہم کرداروں کے خلاف کارروائی دکھائی جائے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو مان لیں کہ اس صوبے میں اگر کسی بیساکھی کے بغیر کوئی سیاسی جماعت تخت پشاور پر بیٹھ سکتی ہے تو وہ تحریک انصاف ہی ہے۔

مزید پڑھیں:  9 مئی مقدمہ، بانی پی ٹی آئی کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ