تعجب ہے، نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، چیف جسٹس

ویب ڈیسک: نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
نیب ترامیم کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس میں بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو انتظامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا تو وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے۔ ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے، کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کیلئے منظور ہوئی؟ وفاقی حکومت کے وکیل نے ہاں میں جواب دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے وفاقی حکومت کے وکیل سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوانے کا کہا۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ وکیل نے بتایا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب دائر ہوئی؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022 کو دائر ہوئی، سپریم کورٹ والی درخواست کا نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا، سماعت 19 جولائی کو ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مرکزی کیس کی کتنی سماعتیں ہوئی تھیں؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تعجب ہے نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترامیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا۔
اس موقع پر بانی پی ٹی آئی نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلا لیا، بانی پی ٹی آئی نے اپنے چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی جس پر اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا، بڑی سکریں سے بانی پی ٹی آئی کی تصویر ہٹا دی گئی۔
دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر سپریم کورٹ انتظامیہ نے تحقیقات شروع کر دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھا یا غلط مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کر دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے تو پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید بتایا کہ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آ سکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر کوئی مقدمہ عدالت آئے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا، چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی ساتھ بیٹھے شخص سے باتیں کرتے رہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2022 کے فالو اپ پر 2023 کی ترامیم بھی آئیں ، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں جس پر وکیل مخدوم علی کا کہنا تھا کہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سے جواب لیں گے. ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوءے انہوں نے کہا کہ آپ یہ نکات نوٹ کر لیں، چیف جسٹس ریمارکس کے ساتھ زیر لب مسکرا دیئے، بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرائے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ مخدوم صاحب کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئے کوئی اور آرڈیننس لایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیبنس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

مزید پڑھیں:  ہری پور، پہاڑی پر اچانک آگ بھڑک اٹھی، عوام میں خوف و ہراس