نیب ترامیم کیس، سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

ویب ڈیسک: نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت سپریم کورت میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
بینچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی جبکہ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی کے نام شامل ہیں۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے آغاز میں براہ راست نشریات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سماعت پہلے بھی براہ راست دکھائی جاتی تھی اب بھی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ فیصلہ چار- ایک سے کیا گیا۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے۔ پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کر سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ میں اپنی بات کرتا ہوں، میں میڈیا و سوشل میڈیا دیکھتا اور اخبارات پڑھتا ہوں، وزیر اعظم نے کالی بھیڑیں کہا تھا جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجود ججز کیلئے استعمال نہیں کئے گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائی گئیں؟ قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سے کم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے دریافت کیا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن 9 اے 5 میں تبدیلی کر کے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت خیبرپختونخوا اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی؟ وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں احتساب ایکٹ اس لئے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہو رہا تھا، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وزراء پریس کانفرنسز کر کے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے؟ اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ میری رائے بالکل ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
بعد ازاں عمران خان اور چیف جسٹس کے درمیان پہلا باضابطہ مکالمہ ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کریں گے؟
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جواب دیا کہ میں آدھا گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں، مجھے تیاری کیلئے مواد ملتا ہے نہ ہی وکلا سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے، میں قید تنہائی میں ہوں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ آپ کے پاس موجود ہیں، چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ عمران خان نے بتایا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان ایک سینیئر وکیل ہیں انہوں نے ملک سے باہر جانا تھا تو ان کو ان کی مرضی کی ایک مقدمے میں تاریخ دی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلا سے ملاقات بھی ہوگی، اگر آپ قانونی ٹیم کی خدمات لیں گے تو پھر آپ کو نہیں سنا جائے گا۔
اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ کسی قانونی شخص سے معاونت تو ضروری ہے تیاری کیلئے، خواجہ حارث اور ایک دو اور وکلا سے ملنا چاہتا ہوں، یہ ملک کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دیتے ہوئے عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو بھی ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

مزید پڑھیں:  پی تی آئی احتجاج، جڑواں شہروں کو ملانے والے راستے تیسرے روز بھِی بند