”ایک انار سو بیمار ”

امن وامان صورت حال کے بعد صوبے میں صحت کی سہولیات کی فراہمی میں پیدا ہونے والے مسائل بھی عوام کیلئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ایسے واقعات رونما ہوئے جس کا اثر مدتوں ہمارے ذہن پر رہے گا۔سوشل میڈیا پر ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرے دوست کو بچا لیں اس وقت وہ پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ہے جہاں پر آئی سی یو میں اسے بیڈ اور وینٹی لیٹر نہیں مل رہا،کسی دوسرے سرکاری ہسپتال میں وینٹی لیٹر دلا دیں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس نوجوان کے پاس صرف چند گھنٹے ہیں۔سو وہ چند گھنٹے اسی بھاگ دوڑ میں گزر گئے اور وہ نوجوان بھی گزر گیا کیونکہ یہ بے چارے پرائیویٹ ہسپتال میں وینٹی لیٹر کے چارجز برداشت نہیں کر سکتے۔دوسرا واقعہ،ایک پرائیویٹ ہسپتال کے آئی سی یو میں ایک متوسط طبقے کے فرد نے اپنا مریض داخل کرایا۔تمام جمع پیسے خرچ ہوئے اور آخر انہیں زیور فروخت کرنا پڑا۔پاکستان میں ہر روز ہزاروں افراد بیماریوں اور حادثات کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں،وہاں بھی روزانہ سینکڑوں افراد مرجاتے ہیں۔آج کل ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اور قصائی کا ہے۔پہلے علاج ہوتا تھا،اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد از جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا مگر اب مریض گویا ایک ”ATM”کارڈ ہے،لگاتے جاؤ،پیسے نکالتے جاؤ،پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے۔رہی بات فیس کی،تو فیس اگر کم رکھی گئی تو ہسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی۔ڈاکڑ کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا ،پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟۔
اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری ہسپتالوں میں چلے جاتے،وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔بات درست ہے مگر وہاں آپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔ مثلاً اشیائے خوردونوش میں قدرتی غذاؤں کی بجائے جنک فوڈ وغیرہ کا لوگ خوب استعمال کرتے ہیں۔گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کئے جاتے ہیں،کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پائے،اس کے نتیجے میں معدہ کی کمزوری اور اعضائے جسم کا منجمد ہوجانا لازمی ہے۔ یہی حال علاج معالجہ کا ہے پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور باآسانی دستیاب تھیں۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی،عام انسان کیلئے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاں پیدا کردی ہیں۔اگر انسان اسوة رسولۖ کو اپنائے اور اپنے خالق ومالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوگا۔طبیب بھی اپنی زمہ داریاں بہ خوبی ادا کریگا،اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کو مقصد نہیں بنائے گا۔اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں،وہ بھی علاج کا محتاج ہو سکتا ہے۔یہ احساس ہو تو طبیب کو مریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی۔دوسروں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوں کی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی۔دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے،اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے۔ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لئے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیویٹ ہسپتالوں میں آنا ہوگا جہاں معمولی بیماری کو بھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتا ہے۔پورا پیشہ طب تجارتی ہوکر رہ گیا ہے،جہاں مریض گاہک ہے،ڈاکڑ سوداگر اور ہسپتال گویا دکان ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکڑ سے لیکر اردلی تک مریضوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ڈاکڑ کی فیس جو کہ آج کل ایک ہزار سے دو ہزار تک ہے،اتنی بڑی بلڈنگ ہے،لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں،کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تو دینا ہی پڑے گا نا۔یہاں روز روز لمبی لمبی میٹنگ صحت کے مسائل پر ہوتی رہتی ہیں۔یہاں حکومت کی ترجیحات میں صرف اور صرف میڑو بس اور اورنج ٹرین ہے،آپ کو یہ پتہ نہیں جس کا نوجوان بھائی،بیٹا،والد،والدہ،بہن،ماں وینٹی لیٹر نہ ملنے سے مرجائے وہ ساری عمر اس غم کو نہیں بھول پائے گا۔خدارا ایک آڈٹ اس پر کرائیں کہ ایک سال میں کتنے افراد سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہ ملنے پر مرجاتے ہیں۔ابھی تو میں نے یہ بات نہیں کہی کہ ادویات نہ ملنے پر، ڈاکٹروں کی غفلت سے ،غلط علاج سے ،بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ،نرسوں کی غفلت سے ،غربت کے ہاتھوں روزانہ کتنے مریض اور زخمی مرجاتے ہیں۔گورنر صاحب اور وزیراعلیٰ صاحب آپ بھیس بدل کر صرف ایک دفعہ ہماری درخواست پر کسی سرکاری ہسپتال میں مریض بن کر جاکر تو دیکھیں۔پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں جب انتہائی نگہداشت وارڈز میں بیڈز فل ہوگئے ہیں تو مریض کہاں جائیں گے ؟۔
اوسط آمدن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کوئی ایسی کم بھی نہیں ،لیکن اس کے بدلے میں ریاست کی طرف سے شہریوں کو میسر سہولیات کا معیار کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈالر پاکستان افغانستان میںامریکی سامرجیت کا مستقل سبب