ایک اور واقعہ

خیبر پختونخوا میں تو اب معمول بن گیا ہے کہ روزانہ کہیں نہ کہیں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا کوئی واقعہ ہو سیاسی و سماجی افراد کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اس دہشت گردی کے پیچھے جس میں سماجی و سیاسی افرا د کو نشانہ بنایاگیا ہو تحریک طالبان پاکستان تردید کرتی ہے کہ وہ اس میں ملوث ہے بلکہ ان کی جانب سے بار بار اس امر کی وضاحت کی جاتی ہے کہ عام آدمی اور مقامات ان کا ہدف نہیں اور اس طرح کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے باجوڑ کے تازہ واقعے کے بارے میں بھی انہوں نے اسی موقف کو دہرایا ہے اور انہوں نے جس جانب اس واقعے کی ذمہ داری ڈالنے کا اشارہ کیا ہے اس حوالے سے ایک عام تاثر خود ہمارے معاشرے میں بھی رائے راسخ ہوتی جارہی ہے اس سے اتفاق تو نہیں کیا جاسکتا لیکن بہرحال اس کی وجہ جاننا ضروری ہے کہ اس طرح کے تاثر کے پھیلائو کی وجہ کیا ہے اور عوام اس غلط فہمی کا شکارکیوں ہو رہی ہے۔باجوڑ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں معروف سیاسی و سماجی اور قبائلی شخصیت سابق سینیٹر ہدایت اللہ سمیت پانچ افراد کے جاں بحق ہونے کا واقعہ سنگین اور افسوسناک ہے ماضی میں بھی باجوڑ میں اس طرح کے سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں اور اس کا اعادہ جاری ہے ۔ عام انتخابات میں بھی اس طرح کے واقعات کے باعث بعض سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم ختم کرنا پڑی اور ان کو سخت مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑاسیاسی قائدین پر حملے ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی سازش ہے ان خطرات کے پیش نظر جہاں سیاسی رہنمائوں کو از خود سخت احتیاط کی ضرورت ہے وہاں حکومت کو ان کا تحفظ یقینی بنانے کی بھی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے اس صوبے میں حکمران جماعت ہی کے سابق سینیٹر اور انتخابی امیدوار کے عزیز کو تاک کرنشانہ بنانا خود حکومت کے لئے بھی چیلنج سے کم نہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس ناکامی پر حسب دستور کسی کو مطعون کرنے کی بھی زیادہ گنجائش نہیں اس ساری صورتحال میں آپریشن عزم استحکام پر اتفاق نہ سہی مگر دہشت گردی کے مسلسل واقعات کی روک تھام کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے اور دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے منظم کوششوں میں تاخیر کی بھی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  اچھا منصوبہ