” پاکستان اور افغانستان ”حاصل مطالعہ

جنرل حمید گل کا آپریشن جلال آباد بدترین ناکامی کا شکار ہوا تھا اس ناکامی کی دو بنیادی وجوہات تھیں اولا یہ کہ افغان مجاہدین کی تنظیمیں شخصی عصبیت کا شکار تھیں، ہر تنظیم اپنے امیر کو امیر المجاہدین و قائد انقلاب سمجھتی تھی۔ ثانیا یہ کہ بظاہر عبوری حکومت (جلال آباد کی فتح کی صورت میں) کے قیام پر افغان تنظیمیں اتفاق کرتی تھیں لیکن اندر کھاتے کوئی بھی دوسرے کو عبوری ڈھانچہ میں خود سے بڑے کردار میں برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا ایک وجہ اور بھی تھی وہ یہ کہ پشتون علاقوں سے تعلق رکھنے والی مجاہدین کی تنظیمیں غیرپشتون افغان مجاہدین کو مساوی حقوق دینے پر آمادہ نہیں تھیں۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر ریاض محمد خان آپریشن جلال آباد کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” جلال آباد آپریشن ضروری تیاریوں کے بغیر شروع ہوا، کسی نے بھی اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ مقابلہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی منظم افغان فوج سے ہے۔ اسی دوان جنگجوئوں (وہ مجاہدین لکھتے ہیں) سے بھیانک غلطی سرزد ہوئی۔ افغان فوج کے 70 سپاہی ہتھیار ڈال کر جنگجوئوں سے آن ملے۔ مولوی یونس خالص کے جنگوئوں نے ان فوجیوں کو قتل کرکے لاشیں جلال آباد کے نواح میں پھینک دیں۔ جوابا کفن یا وطن کا نعرہ لگاتے ہوئے افغان فوجی محاذ پر ڈٹ گئے اور سوویت یونین کو توڑنے کا دعوی کرنے والے شکست سے دوچار ہوئے۔ ہون سیون 1988 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اقوام متحدہ کے لئے نمائندہ مقرر ہوئے۔ مہاجرین کی واپی اور افغانستان کی تعمیر نو ان کے اہداف تھے۔ 1990 میں وہ وزیراعظم میاں نوازشریف سے ملاقات کے لئے آئے۔ اس ملاقات میں ہون سیون نے نوازشریف کو تفصیل کے ساتھ اقوام متحدہ کی تجاویز سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ سابق صدر جنرل ضیا الحق بھی وسیع النبیاد افغان حکومت کے حامی تھی۔ ایسی حکومت صرف مذاکرات سے ہی بن سکتی ہے۔ جواب میں نوازشریف نے محض چند رسمی جملے کہے اور یقین دلایا کہ پاکستان امن و مصالحت کے حق میں ہے۔ ہون سیون ملاقات کرکے رخصت ہوئے تو وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے ملاقاتی کمرے میں موجود اپنے معاونین سے دریافت کیا یہ شخص افغانستان کے باریمیں اتنی باتیں کیوں کررہا تھا۔ نوازشریف اس وقت چونکہ آئی ایس آئی اور جماعت اسلامی کے زیراثر تھے، یہ دونوں ہی نجیب اللہ سے کسی قسم کے مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔
1991 میں وزارت خارجہ نے آئی ایس آئی کے تعاون سے وزیراعظم نوازشریف کے لئے افغان امور پر ایک مفصل دستاویز تیار کی۔ اس پر غور کرکے لئے اجلاس منعقد ہوا تو وزیراعظم حیران ہوئے کہ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں نے سفارشات کی منظوری دے دی مگر افغان رہنما برہان الدین ربانی نے ان سفارشات کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جماعت اسلامی کی معرفت پیغام بھجوادیا گیا تھا کہ نوازشریف کی سفارشات کو قبول نہ کیا جائے (برہان الدین ربانی نے دسمبر 1991 میں اس کالم نویس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیغام لانے والے جماعت اسلامی کے رہنما نے صاف صاف کہا تھا کہ نوازشریف کی تجاویز (وسیع البنیاد حکومت) امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہیں مجاہدین کے لئے پاک فوج کا مشورہ ہے کہ وہ اپنے عظیم مقاصد سے پیچھے نہ ہٹیں)
1991 میں ہی صدر غلام اسحق خان نے اپنی پشتون ولی کے مظاہرے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے مستقبل کے افغانستان کے لئے ایک خاکہ تجویز کیا۔ وہ افغان رہنمائوں کو بلاتے اپنی تجاویز انکے سامنے رکھتے اور جوابا افغان رہنما باری باری اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ پشتون ولی کا یہ ڈرامہ تین اجلاسوں تک چل پایا پھر صدر اسحق نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑدیا۔ (یہاں ریاض محمد خان کو لکھنا چاہیے تھا کہ ایوان صدر میں منعقدہ ان اجلاسوں کے افغان شرکا اجلاسوں میں شرکت سے قبل آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز جاتے اور پھر وہاں سے ایوان صدر) سفارتی کوششوں کو موثر بنانے کے لئے پاکستان نے اپنے افغان جنگ کے زمانہ کے دوستوں سے مدد چاہی اور کہا کہ افغانستان کی تعمیرنو کے لئے 2 سے تین بلین ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا جائے مگر دوست ممالک نے سردمہری کا مظاہرہ کیا بلکہ امریکہ نے بھی جو افغان جنگ کے آغاز سے 30ملین ڈالر سالانہ دیتا تھا مزید رقم دینا بند کردی۔ یہ 30ملین ڈالر غذائی امداد کے لئے ملتے تھے۔
افغان رہنمائوں میں قبائلی انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ پشتون جنگجو رہنما غیرپشتون رہنمائوں کو اچھوت سمجھتے تھے۔ گل بدین حکمت یار آئی ایس آئی، ضیا رجیم اور سعودی عرب کے پسندیدہ تھے۔ ان کی کبھی بھی شمالی افغانستان کے جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود سے نہ بنی۔ ان دونوں کی ذاتی نفرت نے ہر قدم پر پاکستان کے لئے مسائل پیدا کئے۔ افغان جنگ میں 10 لاکھ روسی فوجوں نے حصہ لیا (سابق سوویت یونین کی وزارت دفاع نے جون 1990 میں افغانستان میں لڑنے والے اپنے فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ بتائی تھی۔ ریاض خان صاحب نے 10 لاکھ کے اعدادوشمار کہاں سے لئے یہ وہی جانتے ہیں۔ ان میں سے 14 ہزار کے قریب جاں بحق ہوئے۔ پاکستان اور ایران کی افغان تنازع کے حل کے لئے مشترکہ کوششوں کی ناکامی کا ذمہ دار ریاض محمد خان نے ایران کو ٹھہرایا۔ ان کہنا ہے کہ ایران وسیع البنیاد حکومتی انتظامات میں افغان شیعوں کے لئے25فیصد نمائندگی چاہتا تھا۔
21دسمبر1991 کو روسی نائب صدر الیگزینڈر ٹسکے پاکستان کے دورہ پر آئے۔ وہ پاکستان کے لئے گہرے محبت بھرے جذبات رکھتے تھے۔ انہوں نے افغان جنجگوئوں کی قید میں موجود روسی فوجیوں کی رہائی کے لئے پاکستان کو اثرورسوخ استعمال کرنے کو کہا۔ نوازشریف نے ان سے ملاقات کے بعد صدر اسحق، آرمی چیف جنرل آصف نواز، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی سے بات کی۔ طے پایا کہ افغان جنگجوئوں سے بات کرنے کچھ روسی قیدی الیگزینڈر ٹسکے کے حولے کردیئے جائیں۔ اسد درانی اور ماسکو میں پاکستان کے سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے استاد ربانی (برہان الدین ربانی) اور گل بدین حکمت یار سے بات کی۔ دونوں رہنمائوں نے اپنی مجبوریاں بیان کیں اور معذرت کرلی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے استاد ربانی اور حکمت یار کو روسی جنگی قیدی الیگزینڈر کے حوالے کرنے سے روک دیا تھا۔ ایک سال بعد جب ربانی افغانستان کے صدر بنے تو انہوں نے کئی جنگی قیدی روس کے حوالے کردیئے۔ ریاض محمد خان کی کتاب افغانستان اور پاکستان تاریخ کے خزانہ سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے افغان امور کے حولے سے بہت سی زبان زد عام باتوں کی بھی تصدیق کی اور بہت سے بھیدوں سے بھی پردہ اٹھایا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ گل بدین حکمت یار کو خوست سے زیادہ کابل پر قبضہ کرنے کا شوق تھا مگر ان کے اس شوق کے آڑے ان کا پرانا حریف احمد شاہ مسعود آگیا البتہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانیوں نے خوست کے محاذ پر جلال الدین والی غلطیاں دہرانے سے اجتناب برتا۔ 1991 میں آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی بشری خامیوں کے باوجود اچھے سولجر اور منصوبہ ساز کی شہرت رکھتے تھے۔

مزید پڑھیں:  مفاہمت کا سنہرا موقع