سانس لینے پر بھی ٹیکس ہونا چاہیے!

وفاق ہو یا پھر صوبے، یہ اپنے اللوں تللوں کے خاتمے پر تو کوئی توجہ نہیں دیتے، نہ ہی مراعات یافتہ طبقات سے کوئی تعرض کرتے ہیں اور انہیں خواہ حاضر سروس ہوں، ریٹائرڈ، ارکان پارلیمنٹ ہوں وغیرہ وغیرہ، ہر قسم کی مراعات بوریوں میں بھر بھر کر ان کے قدموں میں ڈھیر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ سارا بوجھ غریب عوام کو منتقل کر کے ان کی زندگی اجیرن کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، اس ضمن میں خیبر پختونخوا کی حکومت کے تازہ مجوزہ فیصلے کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جا سکتی کہ دوسرے صوبوں کی گاڑیوں پر خیبر پختونخوا میں ٹیکس وصول کیا جائے گا، اس میں قطعاً شک نہیں کہ ہر صوبے کی گاڑیاں دیگر صوبوں میں بھی لوگ چلاتے ہیں، کراچی میں جا کر دیکھیں تو بلوچستان میں رجسٹرڈ شدہ لاکھوں گاڑیاں سڑکوں پرچلتی پھرتی نظر آتی ہیں، ایسی ہی صورتحال خصوصاً اسلام آباد، لاہور اور راولپنڈی نمبر پلیٹ کی گاڑیاں خیبرپختونخوا میں دوڑتی ہیں تو خیبر پختونخوا کی بھی ہزارہار موٹر کاروں کے علاوہ ٹرالرز، ٹرک، بسیں ،فلائنگ کوچز وغیرہ وغیرہ بھی اٹک پار آتی جاتی ہیں ،اگر خیبر پختونخوا حکومت نے ایسا کوئی اقدام اٹھایا تو اس کے جواب میں خصوصاً پنجاب میں یہاں کی رجسٹرڈ مختلف النوع گاڑیوں کیساتھ جو سلوک”رد عمل” کے طور پر کیا جائے گا اس کے نتائج خاصے منفی نکلیں گے، کیونکہ پنجاب پولیس تو ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں ماہر ہے، اس سے صوبوں کے درمیان نفرتوں کی ایک اور صورت ابھرے گی جس سے احتراز کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  مودی کی ہوائی یاترا اور پاک بھارت تعلقات