فیصلہ یا آئین نویسی ؟

قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ میں 13 رکنی فل کورٹ سماعت کے بعد گزشتہ روز 8 ججز کے اکثریتی فیصلے پر ایک عمومی رائے یہ ہے کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل کی درخواست جن بنیادوں پر مسترد کی گئی انہی بنیادوں پر بلا مانگے تحریک انصاف کو ان مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیدیا گیا۔ اس فیصلے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر حمایت اور مخالفت میں برپا طوفانوں سے قطع نظر یہ سوال اہم ہے کہ اس اکثریتی فیصلے بارے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے بھائی، چند اینکرز اور یوٹیوبرز کو کیسے پیشگی علم ہوا کہ فیصلہ 5ـ8کے تناسب سے آئے گا۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے چھوٹے بھائی فیصلے سے دو دن قبل سے اپنے کارکنوں کو حق میں فیصلہ آنے کی نوید دیکر جشن کی تیاریوں کیلئے کہہ رہے تھے۔ اکثریتی فیصلے کے حوالے سے پیشگی اطلاع اگر تجزیہ پر مبنی ہوتی تو باتیں کسی اور انداز میں ہوتیں لیکن اس حوالے سے جو کہا گیا وہ سوفیصد درست ثابت ہوا۔ مطلب قبل از وقت دعویٰ کرنے والے بھی آگاہ تھے کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد ہوگی اور فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آئے گا جو اس کیس میں پارٹی ہی نہیں تھی۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قانون دان سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس لیکر سپریم کورٹ گئے تھے فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آگیا۔ سید علی ظفر ماہر قانون دان ہیں اور ہمیشہ نپے تلے انداز میں رائے دیتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ہمدرد یوٹیوبرز دعویٰ کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی آئندہ ہفتے کیلئے جاری ہونے والی کاز لسٹ میں چیف جسٹس کا کسی بھی بنچ میں موجود نہ ہونا سپریم کورٹ میں ان کی تنہائی کا ثبوت ہے۔ کیا واقعی ایک بار پھر سپریم کورٹ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے؟ ایسا ہے تو پھر اس تاثر کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اکثریتی فیصلہ سوشل میڈیا کے طوفان بدتمیزی سے بچنے کیلئے دیا گیا ہے یا شخصی پسندوناپسند کی بنیاد پر۔
اکثریتی فیصلے پر حکمران اتحاد کے رہنمائوں کے تبصروں کو اگر جی کے پھپھولے پھوڑنے کے مصداق بھی سمجھ لیا جائے تو بھی یہ امر اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جو پارٹی درخواست گزار ہی نہیں تھی اسے گھر بیٹھے ”عطا” کردیا گیا اور یہ عطا بذات خود آئین نویسی ہے۔ آئین نویسی کی بات پھبتی یا خلاف واقع ہرگز نہیں فیصلے کے مندرجات سے جن سوالات نے جنم لیا ان میں اہم سوال یہ ہے کہ آئین کی حقیقت پسندانہ تشریح سپریم کورٹ کا فرض ہے یا من پسند تشریح؟ الیکشن کمیشن کا بھی اس فیصلے کے حوالے سے موقف اہمیت کا حامل ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ”پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کرنے والوں نے پارٹی ٹکٹ دیا نہ ڈیکلریشن نہ ہی پی ٹی آئی کسی عدالت میں فریق بنی اس کے باوجود اسے مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے”۔ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جماعتی انتخابات درست نہ ہونے پر انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر گزشتہ روز اکثریتی فیصلہ آنے کے بعد سے ہر خاص و عام نہ صرف بات کررہا کہ بلکہ یہ سوال بھی کہ سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار کیوں رکھا۔ کیا وہ فیصلہ دینے والے جج صاحبان اْس وقت کسی کے دبائو میں تھے یا پھر اب۔ یا پھر الزام تراشی کی مہم سے متاثر ہوئے ہیں؟ بظاہر مندرجہ بالا اور دیگر سوالات سے آنکھیں چرانا غلط ہوگا۔ اکثریتی فیصلے کے بعض نکات سے تو ایسا لگتا ہے کہ پولیٹیکل پارٹی ایکٹ، انتخابی قوانین اور دستور میں سے کسی کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ ان کی روشنی میں رائے اور فیصلہ دیا جاتا یا یہ کہ تینوں کی ان شقوں کی نشاندہی کی جاتی جن میں سقم ہے اور پارلیمان کو تجویز کیا جاتا کے ان سقموں کو دور کیا جائے مگر ہوا اس کے برعکس مثلاً انتخابی نتائج حتمی نوٹیفکیشن کے اجراء کے 3 دن کے اندر منتخب ارکان کو جو قانونی تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں پانچ ماہ بعد ان تقاضوں کے حوالے سے نیا فیصلہ اور سہولت قوانین کی بنیادی روح کیخلاف ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا جارہا کے شخصی پسندوناپسند پر آئین و قانون کو روند کر رکھ دیا گیا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ نظرثانی کی اپیل حکومت کا حق ہے مگر یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ جو لوگ انتخابی قوانین کے مطابق سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ان کی اس شمولیت بارے الیکشن کمیشن کا تائیدی فیصلہ غلط تھا اور ایسی ہی غلطی اب فلور کراسنگ کے قانون کو روندنے کی کوشش کرکے کی جارہی ہے۔ بالفرض یہ بات مان بھی لیا جائے کہ انتخابی نشان کے بغیر کوئی پارٹی انتخابی عمل میں شرکت کے حق سے بطور جماعت محروم نہیں ہوتی تو کیا فیصلہ کا یہ نکتہ قانون سازی کے زمرے میں نہیں آئے گا ،نیز کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت قانون کی تشریح کے ساتھ ازخود قانون سازی کا حق بھی استعمال کرسکتی ہے؟ ہماری دانست میں اس سوال کا جواب دیا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ فیصلے کے اس نکتے نے ایک اور قانونی و آئینی بحران کو جنم دیا ہے۔ بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اب یہ کہہ رہی ہے کہ انتخابی نشان پر ہمارے فیصلے کی غلط تشریح کی گئی۔ وضاحت کی جائیگی کہ کیا غلط تشریح ہوئی؟ انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دینے کے علاوہ اس فیصلے میں ایسی کون سی شق ہے جس سے غلط تشریح والے نکتے کی تائید ہوتی ہو؟ بادی النظر میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر وزراء کی یہ بات درست لگتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے تشریح کی بجائے آئین سازی کا فرض سنبھال لیا ہے۔ یہ کہنا نامناسب نہیں ہوگا کہ آئین سازی صرف پارلیمان کا کام ہے۔ یہ بجا ہے کہ مخصوص نشستیں اگر پی ٹی آئی کو مل بھی جاتی ہیں تو اس کی صرف عددی اکثریت میں اضافہ ہوگا نظام میں عدم توازن کا فوری خطرہ ہرگز نہیں ۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ نئے سیاسی بحرانوں ، دستوری تنازعوں کی دھمک صاف سنائی دے رہی ہے۔ ان بحرانوں اور تنازعات سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اندریں حالات ایک بار پھر بعض سیاسی جماعتوں، قانون دانوں اور اہل دانش کے اس مؤقف کو تقویت ملی ہے کہ سیاسی و دستوری تنازعات کے تصفیے کیلئے الگ سے وفاقی دستوری عدالت قائم کی جانی چاہیے اور اس کیساتھ اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرری کے حو الے سے 18ویں ترمیم کی جو شقیں 19ویں ترمیم کے ذریعے ختم کی گئیں ان پر نظرثانی کی ضروت ہے کیونکہ وہ شقیں افتخار چوہدری گروپ نے بلیک میلنگ کے ذریعے ختم کراکے اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی تقرریوں کا راستہ مزید ہموار کرایا تھا۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ تمام فریق دستور، نظام اور جمہوریت کے مفادات کو ترجیح دیں گے تاکہ حالات میں کوئی بہتری آسکے۔

مزید پڑھیں:  تاجر دوست سکیم ، متضاد رویئے؟