قبائلی عوام کا مقدمہ

میں خیبر پختونخوا کے صوبے کے مسائل اور معاملات بارے لکھنے سے اس بناء پر اجتناب کرتی ہوں کہ نہ تو مجھے ان سے کامل آ گا ہی ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے مقامی لکھاریوں کی بے نیازی دیکھ کر کافی عرصہ میں نے فون پر عوامی مسائل بارے معلومات لے کر بساط بھر سعی کی کافی عرصہ وہ سلسلہ چلا بہرحال جب بھی ہوسکے تو میری کوشش ہوگی کہ صوبے اور علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کرسکوں خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کن حالات سے گزرے اور گزر رہے ہیں وہ سبھی کو معلوم ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے وہاں دہشتگردی اور انتہا پسندی مسئلہ رہا اور طویل ہوا اب بھی سلسلہ جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہنا ہے بہرحال یہ اپنی جگہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں قانون اور آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ بھی مسائل کا باعث ہے میں پشتون تحفظ مؤ ومنٹ کی ناقد ہوں پس پردہ معاملات کیا ہیں ان کا تو علم نہیں لیکن بظاہر تو وہ آ ئیں قانون دستور اور امن کی بات کرتے ہیں مگر یہ بھی مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے اس تحریک یا تنظیم کی باضابطہ ابتداء کراچی میں وجیہہ اور سوشل میڈیا پر مقبول نوجوان نقیب اللہ محسود کو دہشتگرد قرار دیکر پولیس کے ہاتھوں موت سے ہوئی تھی بعد میں یہ بات سامنے بھی آ ئی کہ وہ بیگناہ تھے ان کو راؤ انوار نے کیوں نشانہ بنایا اس بارے بھی کہانیاں لوگ سناتے ہیں نجانے سچ ہیں یا گھڑی گئی ہیں مگر بہرحال لوگوں کی زبانیں تو بند نہیں کی جاسکتیں کچھ کہانیاں تو پشتو ن تحفظ موومنٹ کے حوالے سے بھی لوگ سناتے ہیں تفنن طبع کیلئے آ پ بھی سن لیں کہ پی ٹی ایم کی سینئر قیادت کو وزیر یرستان جاتے چیک پوسٹوں پر وردی پوش سلیوٹ بھی کرتے دیکھا گیا ہے کم ازکم میں نے تو کبھی نہیں دیکھا ایسا ہوتا تو ویڈیو نہ آ ئی ہوتی ویڈیوز میں تو ان کو روکنے جھگڑنے اور دھکم پیل کرتے ہی دیکھا گیا ہے۔
ایک اور بھی اس طرح کا لطیفہ ہے وہ پھر سہی قبائلی علاقوں کو پہلے وقتوں میں یاغستا ن کہا جاتا تھا فاٹا کی تحلیل کے بعد اب یہ باغستان کا منظر پیش کر رہا ہے خدا خدا کرکے طالبان سے کسی حد تک خلاصی ملی تو اب بیت اللہ محسود کی جگہ منظور پشتین نے لے لی ہے مگر فرق یہ ہے کہ وہ دہشتگرد تھے، لوگوں کا گلہ کاٹتے تھے، فوج پر حملے کرتے تھے مگر پی ٹی ایم ایسا کچھ نہیں کرتی، قانون اور آئین کی بات کرتی ہے، حقوق اور محرومیوں کا رونا روتی ہے البتہ فوج پر زبانی گولہ باری ضرور کرتی ہے اگر ایسا نہ کرے تو پھر پی ٹی ایم چلے گی کیسے؟؟ان کا تو سارا زور فوج کو بدنام کرنے پر ہے، ان کے ایسا کرنے سے تو کسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن وہ ایسا کرتی کیوں ہے کیوں اپنے ہی ملک کے اداروں سے ان کو سخت شکایات ہیں جب نیک محمد سے بات ہوسکی تھی تو ان کے تحفظات سننے اور ان کو دور کرنے میں بھلا کیا امر مانع ہے انہوں نے تو ہتھیار تو نہیں اٹھائے ہوئے ہیں اور نہ ہی اس کا کبھی اعلان کیا ہے ،ان کا لہجہ تلخ ضرور ہے تو کیا ہو ا ہیں تو ہمارے ہی، پی ٹی ایم کی قیادت بھی غور کرے کہ وہ آ ہستہ آ ہستہ خود اپنے ہاتھوں کھلے دروازوں کو تالے لگاتے جارہی ہے جو کوئی دانشمند انہ امر نہیں ،ریاست و حکومت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ،سردار انور بگٹی المعروف نواب اکبر بگٹی بھی جذبات میں بہہ گئے تھے انجام کار نشانہ بننا پڑا، دوسری جانب کو بھی سوچنا چاہیے کہ انہوں نے اکبر بگٹی کو تو مار دیا مگر بلوچستان میں امن تو نہ آ یا، الٹا حالات خراب ہی ہوئے، یہ جنگ وجدل کوئی نیک شگون نہیں بد شگونی ہے اس سے ہمیشہ نقصان ہی سامنے آ یا ہے، حاصل وصول کچھ بھی نہیں سوائے تباہی وبربادی کے۔
چونکہ پی ٹی ایم اب اپنے ایک سرگرم شاعر کی موت پر ماتم کناں ہے اس لئے میں ان کے بارے کوئی سخت بات نہیں لکھتی قبل ازیں ان کے لوگوں کے ساتھ کس نے کیا کیا میں اس بحث میں نہیں پڑتی ،گیلہ من وزیر کا قتل تو ان کے روایتی دشمن قبیلہ داوڑ کے چند افراد کے کرنے کا بتایا جا رہا ہے، وجہ عند عید کے موقع پر گا ڑیوں کی ٹکر تھی پھر یہ فوج پر تبرا کیوں ؟میرے اس جملے سے مبادا کوئی اسے وزیر اور داوڑ قبیلے کو لڑانے کی سازش سے نہ گردانے گو کہ وزیر اور داوڑ قبیلے کی دشمنی رہی ہے لیکن یہ واقعہ چند اشخاص کا ہے جن کی گرفتاری اور عدالت میں مقدمہ ثابت کرکے سزا دلوانا حکومت کی ذمّہ داری ہے اسے کسی دشمنی کا رنگ نہ دیا جائے ،بہرحال اب قبائل کے درمیان پہلے کے حالات نہیں رہے ،وہ باشعور ہوچکے ہیں ان کا تحرک خود اس امر پر دال ہے کہ اب قبائلی علاقوں کے عوام باشعور اور اپنے حقوق سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں، نقل مکانی کی بہت مشکلات اور کیمپوں میں وقت گزارنا ان کیلئے برا خواب ضرور تھا مگر وہ باشعور ہی نہیں وہاں سے کندن بن کر روانہ ہوئے ،اب ان کو کوئی بھی ورغلا نہیں سکتا اور وہ کسی کے جھانسے میں بھی نہیں آ ئیں گے۔
باشعور ہونے کا تقاضا ہے کہ قبائلی عوام کسی کے بھی جھانسے میں نہ آ ئیں اور اس بات سے ہوشیار رہیں کہ کوئی بھی ان کے جذبات سے نہ کھیل سکے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے حقوق اور حالات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر اس پر صاد کریں ،یہ ہر کوئی تسلیم تو کرتا ہے کہ قبائلی عوام سے ناانصافی ہوتی رہی ہے افسوس یہ ہے کہ ایک طرف اعتراف اور دوسری طرف بدستور قبائلی علاقوں کو جان بوجھ کر جنگ زدہ اور آ گ زدہ رکھا جارہا ہے، صرف صوبہ نہیں مرکز اور وفاق اس ناروا سلوک کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے ،ضم اضلاع کے عوام کو اب تک این ایف سی ایوارڈ سے حصہ نہیں ملا ،کو ئی بھی صوبہ اس کیلئے تیار ہی نہیں ،وسائل نہ ہوں تو مسائل کا حل اور ترقی کیسی اور کہاں کی ترقی ومسائل کا حل اس طرح کا سلوک روا رکھا جائے تو تنگ آ مد بجنگ آ مد کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں، آ ج ضم اضلاع میں بے چینی کی جو لہر چل رہی ہے اس کا پی ٹی ایم واحد ذمہ دار نہیں بلکہ وہ تو متاثر ہ فریق ہے، صورتحال کا تقاضا ہے کہ ان کے مسائل پر حکومتی سطح پر خالص عوامی نمائندوں اور معاشرے کے اصل نمائند وں سے بات کی جائے اور ان کے مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کی جائے، پی ٹی ایم کے سارے مطالبات اور تحفظات درست نہیں ہوسکتے ،نصف تو درست اور قابل قبول ہوں گے، وفاقی حکومت کو اگر فرصت نہیں توصوبائی حکومت کو قبائلی عوام کے نمائندوں سے بات کرنی چاہیے ،ان کے زخموں پر نمک پاشی نہ کی جائے ،ان کی بات سنی جائے ،ان کو گلے لگا یا جائے تو وہ نعرے سننے کو نہیں ملیں گے جو سننے کو مل رہی ہیں، ان سے مکالمہ تو کیا جا ئے مکالمہ کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔

مزید پڑھیں:  احتجاج، دھرنے اور جلائو گھیرائو کی سیاست