الیکشن آگے جاسکتے ہیں

اسمبلیاں بحال،الیکشن آگے جاسکتے ہیں،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک :سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل کااقدام واپس اورالیکشن کاعمل آگے بھی جاسکتاہے جبکہ ازخودنوٹس لئے جانے اوربنچ کی تشکیل پربھی سپریم کورٹ کے اندرسے آوازیں اٹھائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟ عدالت نے ازخود نوٹس سی سی پی او غلام ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پرلیا ہے۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا۔ عدالت نے ازخود نوٹس سی سی پی او غلام ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پرلیا ہے جن کے سامنے انتخابات کامعاملہ ہی زیربحث نہیں تھا۔جسٹس جمال نے لارجر بنچ میں دوججزکی شمولیت پربھی اعتراض کیا،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے سوموٹو پر کچھ تحفظات ہیں، ان کے تحفظات کو نوٹ کرلیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کروانے ضروری ہیں اور عدالت کسی طور پر بھی آئین شکنی کو برداشت نہیں کرے گی۔انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، ہمیں آئین کو دیکھنا ہے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا ان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق کی گئی ہے یا کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر توڑی گئی ہے۔
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر سماعت کے دوران عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق نہیں ہوئی تو ان دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔بعد ازاں عدالت نے صدر مملکت اور گورنرکے پرنسپل سیکرٹری کو ان کے نظریے کی نمائندگی کے لیے نوٹس جاری کردیے جب کہ عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بار، چیئرمین سپریم کورٹ بار اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کونوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:  ینگ ڈاکٹرز نے تنخواہوں میں اضافے سمیت کرپشن تحقیقات کا مطالبہ کر دیا