لیول پلیئنگ فیلڈ کیس

سپریم کورٹ، لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کردی۔
دوران سماعت سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ شعیب شاہین! آپ روسٹرم پر آجائیں، یہ آپ کی درخواست تھی، شعیب شاہین صاحب آپ نے درخواست دائر کی آپ دلائل دیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ سینئر وکیل ہیں، میں نے ان سے دلائل کی درخواست کی ہے، میں لطیف کھوسہ کیساتھ کھڑا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ سردار لکھنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا،
یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976 کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے،
یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کے ساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہے اسلئے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا۔
"سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں”
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سردار اور نوابوں کو چھوڑ دیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا، کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا آپ کی اب درخواست کیا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبرکو نمٹایا جا چکا ہے، آپ کی درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنیوالوں کے نام ہیں، الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا؟ کیا الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دئیے؟
چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا الیکشن کمیشن نے کوئی توہین کی ہے تو ثبوت دکھائیں.
جس پر لطیف کھوسہ نے کہا میں سی ڈی لایا ہوں اس میں سارے ثبوت ہیں.
ہمارے رہنماؤں کو کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرانے دئیے گئے، سارے پاکستان نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کیساتھ کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہاں سیاسی تقریر نہ کریں، آئین وقانون کی بات کریں، آپ کہہ رہے ہیں آئی جی اور چیف سیکرٹری نے کارروائی کی، آئی جی اور چیف سیکرٹری کا الیکشن سے کیا لینا دینا ہے؟ آئی جی اور چیف سیکرٹری نے نہیں شفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ توہین عدالت کی درخواست الیکشن کمیشن کیخلاف ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کونسے حکم کی توہین کی ہے؟ آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی درخواست دی گئی، اب ثبوت تو دیئے جائیں، مجھے سمجھ نہیں آرہی ہم یہ توہین عدالت کی درخواست سن کیوں رہے ہیں؟ اگر آئی جی اور چیف سیکرٹری سے مسئلہ ہے تو ان کیخلاف درخواست دیں، آپ افراد کیخلاف کارروائی چاہتے ہیں یا الیکشن کمیشن کیخلاف؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پی ٹی آئی کے قومی وصوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتارہے ہیں، منظوری کا بھی تو بتائیں، آپ نے لکھا، سوشل میڈیا کے مطابق اتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، کیا پی ٹی آئی کے پاس امیدواروں کے کاغذات منظور یا مسترد ہونے کا ڈیٹا نہیں؟ درخواست میں میجر فیملی لکھا ہے، کیا کوئی میجر انتخابات لڑ رہا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کر دیں گے، آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرے؟
لطیف کھوسہ نے کہا صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں.
جس پر چیف جسٹس نے کہا مائیک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریرکر لیں.
آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے.
بارہا کہا عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن سے ریٹرننگ افسر کے آرڈر کی کاپی نہیں ملی تو اپیل کہاں کریں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کے حکم پر 26 دسمبر کو مفصل عملدرآمد رپورٹ دی۔
لطیف کھوسہ نے کہا الیکشن کمیشن کی رپورٹ دیکھنے کیلئے کل تک کا وقت دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم کیا روز آپ کے کیس سنتے رہیں گے؟ عدالت کوئی اور کام نہ کرے؟ اکھاڑا نہیں یہ عدالت ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں.
جس پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ بولے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبر کو لکھا جبکہ عملدرآمد رپورٹ 26 دسمبر کو جمع ہوئی، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کے بعد کچھ کیا ہو تو بتائیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ ویڈیو لگانے دیں، پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا جو پی ٹی آئی کیساتھ ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میں میڈیا نہیں دیکھتا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے کارکنان جب کاغذات جمع کرانے گئے پولیس نے کمشنر آفس کو سیل کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی بات کریں.
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا جس میں ساری تفصیل بتائی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ صوبائی الیکشن کمیشن کا اس کیس سے کیا واسطہ ہے؟ الیکشن کمیشن میں آپ نے کوئی شکایت درج کرائی ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں بہت سے لوگوں نے شکایتیں دائر کی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نے الیکشن کمیشن میں جو شکایت درج کرائی وہ دکھائیں جس پر لطیف کھوسہ الیکشن کمیشن میں کی گئی شکایت کی کاپی نہ دکھا سکے.
چیف جسٹس بولے آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، الیکشن ہو جائےگا آپ پھر شکایتیں درج کرا لینا، اب بھی وقت ہے، ریٹرننگ افسران کے فیصلے پر ٹریبونل سے رجوع کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن سے کوئی موجود ہے؟
جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن آئی، ہم نے انہیں سنا اور حکم نامہ جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کیخلاف اپیل کا آخری دن کب ہے؟
جس پر الیکشن کمیشن کے نمائندے نے بتایا کہ آج اپیل کا آخری روز ہے، 10 جنوری تک ٹریبونلز فیصلے کریں گے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا آپ کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر اپیل کے فورم سے ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جو کچھ ہو رہا ہے یہ کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا، ملک میں بدترین صورتحال پر کوئی آنکھیں کیسے بند کرسکتا ہے؟
بعدازاں سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا: سرکاری وکلا کی قلم چھوڑ ہڑتال، عدالتی بائیکاٹ کا پانچواں روز