بجلی کے نرخوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ

ایک طرف پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سیاسی غیر یقینی، دونوں جانب سے بیانات اور الزامات کی گولہ باری اور ہنگامہ آرائی بڑھ گئی ہے جو کہ ملکی معیشت کے لیے سخت نقصان دہ ہے جو پہلے ہی مختلف بیساکھیوں پر لڑکھڑا کر چل رہی تھی کیونکہ کاروبار، تجارت، سرمایہ کاری، صنعت کاری کو پرسکون اور مستحکم ماحول کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور جب حکومت کا مستقبل غیر یقینی ہو اور ساتھ میں احتجاج، مظاہرے اور ہنگامہ آرائی ہو تو تمام سرکاری ادارے سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور فائلوں پر دستخط نہ ہونے سے تمام کام رک جاتے ہیں۔ دوسری طرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سابقہ واپڈا کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں، جسے ڈسکوز (Discos) کہا جاتا ہے کے لیے 5.95 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا ہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا، وجہ اس اضافے کی یہ ہے کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (CPPA) نے نیپرا کو یہ درخواست بھیجی تھی کہ جنوری سے مہینے میں بجلی کی اصل قیمت جو 6.51 روپے فی یونٹ ہے اس کے بجائے بجلی کی پیداوار کی لاگت 12.62 روپے آئی اور اس کے بعد نیپرا نے جنوری کی پیداواری لاگت کا خود بھی تخمینہ لگایا اور اس کے بعد اس اضافے کا اعلان کیا، اس بھاری اضافے کی ایک وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں LNG بھی شامل ہے جس کی درآمد میں تاخیر کی گئی اور اس طرح اس کی قیمت بڑھ گئی جس پر سندھ سے تعلق رکھنے والے نیپرا کے رکن نے یہ اعتراض کیا کہ اس اضافے میں حکومت کی سست روی اور ناقص کارکردگی کا بھی دخل ہے اور اس کی سزا بجلی کے صارفین کو دینا زیادتی ہے۔
پاکستان میں بجلی کے نرخوں کا معاملہ انتہائی پیچیدہ اور افسوسناک ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید مشکل اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ تو تمام سابقہ حکومتوں کے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ وہ غیر ذمے دارانہ اور غیر منصفانہ معاہدے ہیں جن میں پاور کمپنیوں کو نرخوں کے معاملے میں بڑی چھوٹ دی گئی ہے اور بجلی کے نرخ پیداواری لاگت کے بجائے پیداواری صلاحیت کے حساب سے رکھے گئے ہیں، یہ ایسے عجیب و غریب معاہدے ہیں جن کی سزا پورا پاکستان بھگت رہا ہے اور نہ جانے کب تک بھگتتا رہے گا، دوسری طرف بجلی کے کارخانے تو لگ گئے لیکن بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا انتظام بھی پرانا اور بوسیدہ ہے، چنانچہ جتنی بجلی پیدا ہوتی ہے اس کی دس سے پندرہ فی صد اسی بوسیدہ نظام تقسیم، بجلی کی چوری اور دوسرے نقصانات کی نذر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ بجلی کی پیداوار کمپنیاں اپنی پیداوار کے لحاظ سے حکومت کے سامنے بل رکھ دیتی ہیں، دوسری طرف صارفین تک بجلی کم پہنچتی ہے چنانچہ حکومت کو مکمل پیدا شدہ بجلی کی رقم وصول نہیں ہوتی اور اسی فرق کے باعث بجلی کے پیداوار سے متعلق تمام ادارے حکومت پر اپنا قرض بڑھاتے رہتے ہیں جسے گردشی قرضہ (circular debt) کہا جاتا ہے جو 2.3 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں بجائے سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ذرائع یعنی فرنس آئل، ڈیزل، گیس اور کوئلے سے بجلی پیدا کی جاتی ہے جن کا حصہ 65فی صد ہے جب کہ نیوکلر، ہوا، دھوپ اور پانی کا صرف 35فی صد حصہ ہے اور جیسے جیسے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں پیداواری لاگت بڑھنے لگتی ہے اور اس کا فیول ایڈجسٹمنٹ لاگت (FCA) کی شکل ہی نکلتا ہے اور نیپرا کو بجلی کے نرخ بڑھانے پڑتے ہیں، اس کا حل صرف ایک ہے بجلی بنانے میں مہنگے ذرائع کم کرکے متبادل سستے ذرائع کا انتظام کیا جائے، اس سے بجلی سستی ہوگی، کارخانوں اور تجارت کی لاگت کم ہوگی، اس سے تمام مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں گی اور عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا اور دیکھیں یہ وقت کب آئے گا اس وقت تو تمام سیاست دان حکومت بچانے یا حکومت چھیننے میں لگے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل