مودی، جنوبی ایشیا کا” زلنسکی”؟

امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی سالانہ رپورٹ ایوان نمائندگان کو جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ ماضی کے مقابلے میں نریندر مودی کی قیادت والے بھارت کی جانب سے اس بات کاامکان زیادہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے حقیقی یا خیالی اشتعال انگیزی کافوجی طاقت سے جواب دیا جائے گا۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں ،دونوں کے درمیان گوکہ کشیدگی کے واقعات کم ہو رہے ہیںتاہم اس کے باوجود بھارت او ر پاکستان کے درمیان بحران خاص طور پر تشویشناک ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کرنے کی پاکستا ن کی تاریخ طویل ہے ۔کشمیر میں پرتشدد بدامنی کا کوئی واقعہ یا بھارت میں عسکریت پسندوں کا کوئی حملہ ،ممکنہ فلش پوائنٹ بن سکتا ہے ۔رپورٹ میں چین اور بھارت کے درمیان اُبھرنے والی کشیدگی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے سرحدوں پر پائی جانے والی کشیدگی دونوں میں لڑائی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں حقیقی خطرے کے ساتھ خیالی خطرے کی بات کی گئی ہے ۔اس کا واضح مطلب ہے کہ بھارت فالز فلیگ آپریشن کیلئے پیشگی حملے کا بہانہ بنا سکتا ہے۔ خیالی خطرے کا احاطہ بہت وسیع ہے ۔جس دن یہ رپورٹ سامنے آئی انہی لمحات میں بھارت کی طرف سے ایک سپرسونک میزائل پاکستان کی حدود میں داخل ہوا جسے مار گرایا گیا۔ خیالی خطرے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس میزائل کو اپنی حدود کی طرف بڑھتا دیکھ کر پہلے ہی کئی جوابی میزائل داغ دیتا حالانکہ عین ممکن ہے کہ میزائل کسی فنی خرابی یا انسانی غلطی سے بے قابو ہو گیا ہو۔رپورٹ میں مودی کو ماضی کے بھارتی حکمرانوں سے مختلف قرار دے کر ایک بار پھر بانس پر چڑھایا گیا ہے ۔انہی باتوں نے مودی کا دماغ خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس سے پہلے آسٹریلیا ،امریکہ جاپان اور بھارت پر مشتمل تنظیم کواڈ کے ایک اجلاس میں کہا گیا تھا کہ انڈوپیسفک خطے کا حال یوکرائن جیسا نہیں ہونے دیں گے اور کسی کو طاقت کے ذریعے صورت حال کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔دوسرے لفظوں میں یہ چینی صدژی جن پنگ کو باورکرایا جا رہا تھا کہ وہ تائیوان اور بھارت کے معاملے میں ”پیوٹن” بننے کی کوشش نہ کریں ۔دوسرے لفظوں میں یہ چینی قیادت کو بتایا جارہاتھا کہ اگر چین نے لداخ یا تائیوان میں کوئی عسکری مہم جوئی کی تو”کواڈ ” نامی اتحاد خاموش نہیں بیٹھے گا۔کواڈ کیا کرے گا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔شاید وہی کرے گا جو نیٹو نے یوکرائن میں کیا ۔نہ نوفلائی زون کا یوکرائنی مطالبہ تسلیم کیا نہ پوری طرح روس کا اقتصادی مقاطع کیا اور نہ دنیا کے سب سے بڑے عسکری اتحاد نے اپنی باقاعدہ فوج داخل کرکے روسی فوج کی مزاحمت کا راستہ اپنایا ۔اب تو بھارت میں صاحب الرائے افراد یوکرائن میں فریق سے اچانک تماشائی بنتے ہوئے نیٹو کے کردار کی بنیاد پر بھارت کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنے پر زور دینے لگے ہیں ۔امریکہ اور یورپ نے یوکرائن اور ولایمر زلنسکی کے ساتھ جو کچھ کیا ،دنیا اور یوکرائنی عوام اسے بھگت رہے ہیں۔امریکہ اور یورپ نے اپنے رو س کا گھیر ا تنگ کرنے اور اپنے مفادات کو توسیع دینے کا آغازمعاہدے سے خلاف ورزی سے اس وقت کیا جب امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں1998میں سابق سوویت یونین کی تین ریاستوں کو نیٹو کی رکنیت دی گئی اور اس کے بعدیوکرائن کو اگلے نشانے پر رکھ لیا گیا ۔یوکرائن میںیہ حرکت روس اور مغرب کے درمیان مستقل آویزش کا باعث بنی اور اس کا نتیجہ روس کے حملے کی صورت میں برآمد ہوا ۔کچھ یہی معاملہ بھارت اور تائیوان کا ہے جنہیں چین کا” یوکرائن”بنانے کے لئے برسوں سے منصوبہ بندی جا ری ہے ۔بھارت کو چین کے مقابل کھڑ اکرنے کے لئے اس کے غبارے میں غیر ضروری ہوا بھری گئی ہے اور عین ممکن ہے کہ نریندر مودی جیسے سخت گیر شخص کو آگے لانے میں عالمی طاقتوں کا حصہ ہو۔جس شخص پر گجرات کے قتل عام کی بنا پر امریکہ کے دروازے بند ہوتے ہیں وہ وزیر اعظم بھی بنتا ہے اور مغرب اس پر جان ودل سے فدا بھی ہوتا ہے ۔مودی کو مزید حوصلہ دینے کے لئے کواڈ کے نام سے ایک اتحاد کا ڈول بھی ڈالا جاتا ہے۔امریکی اینٹیلیجنس کی رپورٹ میں نریندرمودی کا ایک بہادر اور سخت گیر شخص کاسراپا تراشا گیا ہے کہ شاید ماضی کی قیادتیں پاکستان کی کسی مہم جوئی کو برداشت کر لیتیں مگر مودی جیسا شخص اب یہ برداشت نہیں کرے گا ۔خطرہ حقیقی ہو یا خیالی سہی۔ گویا کہ یہاں فالز فلیگ آپریشن کے لئے بھی گنجائش پیدا کی جا رہی ہے ۔یہ وہی طرز عمل ہے جو عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے نام پر اختیار کیا گیا تھا ۔یہ مودی کو بانس پر چڑھانے والی وہی حکمت عملی ہے جس میں زلنسکی کوپھنسا یا گیا اور مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔یہ احساس میں بھارت میں کہیں نہ کہیں موجود ہے اور اس کا اظہار بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ نگار پروین ساہنی نے ایک وی لاگ میں کیا ہے جس کا عنوان ہے ”یوکرائن نے کواڈ کی بے اعتباری کو بے نقاب کیا”۔اس تجزیے میں پروین ساہنی کا کہنا ہے یوکرائن کی صورت حال کے تناظر میں بھارت کو دیکھنا چاہئے کہ کواڈ ان کی کس حد تک مدد کرسکتا ہے ۔انہوںنے دبے لفظوں میں مودی کو زلنکسی نہ بننے کا مشورہ دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ فوری امن قائم کرنے اورسی پیک کی مزاحمت کی بجائے اسے تسلیم کرنے کو کہا ہے ۔انہوںنے کشمیر کو ڈی ملٹرائز کرنے کی بات کھل کر تو نہیں کی مگر یوکرائن کے اندردو ڈی ملٹرائزڈ علاقوں کا ذکرضرور کیا جنہیں روس نے تسلیم کرتے ہوئے تحفظ کی ضمانت فراہم کی ہے۔بھارت کو یوکرائن کے آئینے میں ایک نظر اپنے وجودپر ضرور ڈال کر طاقت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کا شوق فضول ترک کرنا ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل