دلہ زاک روڈ کے کھنڈرات

ابن انشاء کا مشہور فکاہیہ جملہ کسے یا دنہیں کہ” لاہور کے چاروں طرف لاہور ہی واقع ہے ”کچھ یہی حال پشاور کا بھی ہے کہ اب اس کے چار اطراف میں پشاور شہر ہی واقع ہے ۔ ہوش ربا انداز میں بڑھ رہی آبادی کا نہ کسی نے پہلے سوچا اور اب تو چڑیا ہی کھیت چگ چکی ہیں ۔فصیل شہر کے اطراف میں کبھی دیہات تھے کہ جہاں لہلہاتے کھیت آنکھوں کو تراوٹ بخشا کرتے تھے ۔اور جہاں لوکاٹ ، ناشپاتی ، آلوچہ اور آڑو کے باغوں میں شگوفے کھلا کرتے تھے اب وہاں قدم قدم پر نئی نئی رہائشی کالونیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ رئیل سٹیٹ کا کاروبار ہمارے یہاں یوں بھی سب سے محفوظ کاروبار تصور کیا جاتا ہے ۔ سو جس کی جتنی سیا ہ و سفیدانوسٹمنٹ ہے وہ انہی نئی آبادیوں میں انوسٹ کردیتا ہے ۔ چند برسوں میں دام دگنے تگنے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ اللہ خیر سلا۔کھیت ٹیڑی میڑھی کالونیوں میں تبدیل ہوگئے اور جو پراناشہر تھا وہ سارے کا ساراہائی رائز پلازوں میں تبدیل ہوگیا۔ جیسے بس شہر میں دکانیںہی چلیں گی ،زندگی چلے نہ چلے کوئی پروا نہیں سو اک ہجوم ہے کہ شہر کی سڑکوں پر ہروقت روان دواں رہتا ہے ۔شہر اگر بول سکتا تو ضرور کہتا کہ گزارا کرو بھائیو! وسائل بھی تو ایک مخصوص آبادی کے لیے ہوتے ہیں۔ شہری آبادی کی بھی ایک ممکنہ تعداد ہی ہوتی ہے کہ جس کے تناسب پر تخمینے لگائے جاتے ہیں اور ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں ۔ لیکن ہجوم کبھی بھی شہر نہیں ہوتا ،نہ ہی کسی ہجوم کی ضرورتوں کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے نہ ہی کوئی مناسب پلاننگ کی جاسکتی ہے۔ پشاور شہر بھی شہر سے زیادہ انبوہ بن کر رہ گیا ہے ۔سائل وہی پرانے ایک مخصوص آبادی کے لیے مختص کردہ ،سوگرمیوں میں بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ تو سردیوںمیں گیس کے پریشر میں تو کمی کے مزے لوٹتے رہتے ہیں ۔ سی این جی سٹیشن اتنے زیادہ ہیں کہ وہی ڈوومیسٹک صارف کے حصے کی گیس ایک ہی ہَلے میں ڈکار جاتے ہیں ۔ سو عوام نے گھر گھر گیس کمپریسر لگارکھے ہیں جب چولہا جلانا ہوکمپریسر سے بیرونی امداد کی طرح گیس حاصل کرلیتے ہیں ۔ دلہ زاک روڈسے بہت پرانا رشتہ ہے ۔بچپن میں اس روڈ پر موروثی زرعی زمین پر آنا جانا ہوتا تھا ۔ سنگل سڑک تھی مگر رش کا نام و نشان نہ تھا ۔ سہولت سے سفر ہوجاتا تھا ۔ مگر اس وقت یہی دلہ زاک روڈ پشاور کی مصروف ترین سڑک ہے۔ جوپخہ غلام ،فتح عبدالرحیم ، وڈپگہ ،گلوزئی ، محمد زئی ،دلہ زاک اور میاں گجر جیسے اہم اور بڑی آبادی والے دیہات تک جاتی تھی ۔تمام اہم تعلیمی ادارے اسی روڈ پر بنادیے گئے ہیں ۔اوپر سے یہا ں بہت سی نئی آبادیاں بھی ہوگئی ہیں۔یوں اس سڑک پر ٹریفک ماضی کی نسبت دگنی تگنی ہوگئی ہے۔ یہاں درجنوں بڑے تعلیمی ادارے بن چکے ہیں ۔ہر ادارے کی بیسیوں بسیں ہیں ۔ صبح کے وقت اور چھٹی کے وقت ٹریفک جام ہونامعمول ہے ۔ اس رش میں ایک بار پھنس جائیں تو رنگ روڈ تک کا پانچ منٹ کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہوگا ۔گزشتہ دو برس سے اس سڑک کو ڈبل کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ کام گزشتہ برس تک جہاں تھااب بھی وہیں کھڑا ہے ۔اس روڈ پر روزانہ جاتے ہوئے سوچتا ہوں کہ یہ سڑک اگر جدید دنیا میں ہوتی تو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں یہ کام مکمل ہوچکا ہوتا لیکن دو ڈھائی برس سے دلہ زاک روڈکی سڑک یہاں کے مکینوں اور مسافروں کا منہ چڑارہی ہے ۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں ۔ ورسک روڈ کے ساتھ جو معاملہ ہوا تھا کہ اسکولوں کی آمد کے ساتھ ہی یہاں آبادی بڑھنے لگی تھی ۔ یہ دلہ زاک روڈ نیا ورسک روڈ ہے ۔ نہ تو کوئی آبادی کو روک سکتا ہے نہ ہی رکنی چاہئے ۔ لوگوں نے کہیں تو آباد ہونا ہے ۔ البتہ یہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ ابھی سے اس علاقے کی مستقبل کا فیصلہ کرلیا جائے ۔ اور وہ یوں کہ اس علاقے کے معززین خود اس علاقے کی آئندہ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کوئی پلان بنائیں کہ یہ علاقہ مستقبل میں اپنی خوبصورتی بھی قائم رکھ سکے ۔ دیہات بھی متاثر نہ ہوں اور زندگی بھی آسانی کی ساتھ رواں دواں رہے ۔ اس کے لیے سب سے اہم بہرحال سڑک ہی ہے کیونکہ سڑک ہی کسی علاقے کی لائف لائن ہوتی ہے ۔ دو گھنٹے صبح اوردو گھنٹے دوپہر کو سکول لگنے اور چھٹی کے اوقات میں جیسے اس علاقے کی زندگی معطل ہوجاتی ہے ۔ دن کے اوقات میں چار گھنٹے سڑک بلاک ہوجانا بھلا نقصان کا باعث نہیں تو اور کیا ہے ۔ اسی سڑک پر کئی کاروبار ہورہے ہیں ۔ اور کاروباروں میں نقل وحرکت تو ہوتی ہی ہے ۔ لیکن سڑک کے بلاک ہونے کے بعد بھلا نقل و حرکت کیسے کی جائے ۔ دلہ زاک روڈ بلا شبہ مستقبل قریب میں پشاور شہر کی آبادی کا بڑا بوجھ اٹھانے والی ہے ۔ لیکن ابھی تک یہ علاقہ دیہی سہولیات تک ہی محدود ہے ۔ کئی علاقوں کو گیس کی سہولت میسر نہیں ۔ کئی علاقے پینے کے صاف پانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ بیشتر علاقوں میں نئی سڑکوں کی ضرورت ہے ۔ اور یہ سب مسائل کوئی ایسے مسائل بھی نہیں کہ انہیں حل نہ کیا جاسکے ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ خود اہل علاقہ ان مسائل کو سمجھیں اور اداروں سے رابطے کریں ۔ اداروں کا کام ہی مسائل کا حل کرنا ہے ۔ ہمارے یہاں دیر ضرور لگتی ہے لیکن کام ہوجاتے ہیں ۔دو سال تک سڑک نہ بننا یقینا سوالیہ نشان تو ہے غلطی کس کی ہے عوام نہیں جانتے لیکن اس سے خوامخواحکومت ہی بدنام ہوتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل