ٹکراؤ کی بجائے تحمل اور مفاہمت کی ضرورت

اپوزیشن کی جماعتوں نے جب سے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی ہے،ملک بھر میں اس موضوع پر بحث چھڑی ہوئی ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجہ میں ہر روز اس تحریک کی کامیابی اور ناکامی کے امکانات واضح ہوتے ہیں۔ ایسے میں انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان شدید تناؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس ناگوار صورتحال کی وجہ یہ بنی کہ وزیر اعظم نے ایک عوامی جلسہ میں اعلان کیا کہ اسمبلی میں عدم اعتماد پر کسی فیصلہ سے ایک روز قبل اسلام آباد کے ڈی چوک میں تحریک انصاف اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی اور خود وزیر اعظم اس اجتماع سے خطاب کریں گے۔چند وفاقی وزرا نے تو ارکانِ اسمبلی کو بھی خبردار کیا کہ اُنہیں اسمبلی جانے کے لیے اسی جمِ غفیر سے گزرنا ہوگا اور ووٹ ڈالنے کے بعد واپسی پر بھی پی ٹی آئی کے ان لاکھوں کارکنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن نے تو تحریکِ عدم اعتماد کے پیش کیے جانے سے قبل لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا اور اب اس نئی صورتحال کے پیش نظر تمام متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو 23مارچ کے روز اسلام آباد آنے اور یہاں عدم اعتماد پر رائے شماری تک ٹھہرنے کی دعوت دی ہے۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کو خوب تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ گالم گلوچ کے علاوہ بّرے القابات کا استعمال بھی کیا جارہاہے۔ اپوزیشن نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے طاقت کے ذریعے ہمیں ہراساں کیا تو ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے اور پتھر کا جواب پتھر سے ملے گا۔ملک کے باشعور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان سیاسی جماعتوں کے کارکنان اسلام پہنچ گئے تو ایوان کے سامنے خوب فساد برپا ہوگا اور یہ تصادم پورے ملک میں انتشار اور بگاڑ کا سبب ہوگا۔ پارلیمنٹ کا راستہ روکنا غیر جمہوری عمل ہے۔ ارکانِ اسمبلی کو دستوری اور پارلیمانی طریق کار کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے دیں تاکہ ملک میں جمہوری فکر کی آبیاری برقرار رہے ۔ اربابِ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے جارحانہ طرزِ عمل کی بجائے حکمت و دانشمندی اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اپنے مفاد کے لیے قوم و ملت کو نظر اندا ز کیا ہے، اُنہوں نے اپنی ذلت و رسوائی کے ساتھ قوم کو بھی بڑے خطرات میں ڈالا ہے۔ اس وقت ہم جس سیاسی، معاشی اور بیرونی مشکلات کا شکار ہیں ،ان میں غورو فکر اور عقل و ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ قوموں کی زندگی میں کچھ ایسے نازک لمحات بھی آتے ہیں کہ ان لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اب اگر اسلام آباد میں تمام سیاسی جماعتوں کے ہزاروں کارکن ایک دوسرے کے مدمقابل آجائیں تو اس سے یقیناً دارالحکومت کا امن خراب ہو سکتاہے۔وزیر داخلہ نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اسلام آباد میں رینجر ز اور دوسرے نیم فوجی دستے تعینات کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر فوج بھی طلب کی جا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی اشتعال انگیز صورتحال پیدا ہی کیوں ہونے دی جائے کہ اس پر قابو پانے کیلئے طاقت استعمال کرناضروری ہو جائے۔یہی وہ لمحہ ہے کہ عدم اعتماد کا عمل آئینی ضوابط کے مطابق طے کیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ کو دھمکیوں کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلہ کرنے دیا جائے۔قانونی اور آئینی ماہرین نے یہ واضح کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 ون اے کے مطابق کسی رکن کو اسمبلی میں اپنا ووٹ استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ہاں اگر کوئی رکن اپنی جماعت کے خلاف کسی اور کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو اس معاملہ کو ووٹ دینے کے بعد ہی نمٹایا جا سکتا ہے۔ سیاسی اکابرین کو چاہیے کہ وہ اس آئینی تقاضے اور اعلیٰ پارلیمانی روایات کی پاسداری کریں۔ جب قوم کی قیادت قانون ضابطہ کی پابند ہو، قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھ کر استعمال کرتی ہواور کسی بلند مرتبہ و رتبہ کی خواہش نہ رکھتی ہو تو اس کے اثرات پورے ملک پر اور خاص کر حکومتی مشنیری پر ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما اور قومی سطح کے نمائندے اپنی عوام کے لیے ‘ نمونے’ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہی وہ شخصیات ہیں جو ملک میں ایک کلچر پیدا کرتے ہیں۔
جب ملک کی قیادت اصولوں اور قوانین کو پامال کرے، سیاست کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرے اور اقربا پروری کی مرتکب ہو تو پھر پوری قوم کو انحطاط اور لاقانونیت سے کون روکے گا ؟ قوم کی آنکھوں کا تارا وہی شخص بنتا ہے جو ہر حال میں قومی مفاد کو مقدم سمجھے اور اس کے لیے سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار ہو۔ ایسے میں کوئی پیشکش اور لالچ اس کے پائے ثبات میں جنبش پیدا نہیں کر سکتی۔ لہذا یہ ان پر فرض ہے کہ وہ کسی ٹکراؤ کی بجائے اپنی فہم و فراست اور مفاہمت سے اس ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل