زبان دانی، قصے اور ضرورت

عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے دونوں فریقوں کے بلندبانگ دعوے میدان گرمائے ہوئے ہیں اسی ماحول میں جناب شیخ رشید نے بلاول بھٹو کے لئے ایک بار پھر سطحی زبان استعمال کی گو یہ پہلا موقع نہیں کہ لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ نتھری بات کرنا ان کے بس میں نہیں خمیر کا معاملہ ہے اور چار اور کے ماحول کا بھی جس میں عمر گزری ہو کچھ اس حویلی کے اثرات بھی یقینا ہوں گے۔ شیخ جی کی اپنی زندگی داستانوں سے عبارت ہے لیکن انہیں اس سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا پھر بھی ان کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ عمر کے اس حصے میں اگر وہ زبان و بیان پر قابو رکھیں تو اچھا ہے پتہ نہیں کیوں کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ یہ سب کمپنی کی مشہوری کے لئے ہی کرتے ہیں۔ ایک فقط شیخ رشید نہیں ہر وہ شخص جو سیاست کے میدان اور عقیدوں کے منبر پر جلوہ افروز ہے اسے بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس روش پر ہمارے وزیراعظم بھی گامزن ہیں اپنے مخالفین کو وہ جن ناموں اور القابات سے یاد کرتے ہیں وہ کسی طرح بھی درست نہیں۔ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں، مخالفین کی تضحیک اگر وہ اپنا حق سمجھتے ہیں تو پھر اپنے اور رفقا کے معاملے میں پیدا ہوئی بدمزگی پر سرکاری محکموں کی طاقت بھی نہ دکھایا کریں۔ تمہید طویل ہوگئی آئیں ہمارے مرشد جی کی بات کرتے ہیں وہ ان دنوں ق لیگ اور ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی کا پرانا حسن سلوک یاد دلوانے میں پیش پیش ہیں۔ مرشد بھلے آدمی ہیں بس وزیراعظم نہ بن سکنے کی وجہ سے اکھڑے اکھڑ ے رہتے ہیں۔ وزیراعظم کیوں نہیں بن سکے اس کا پس منظر خود ان پر بھی عیاں ہے۔ پیپلزپارٹی پر ان کے فوری غصے کی وجہ یہ ہے کہ مرشد نے ڈیڑھ سال قبل پی ڈی ایم کی ایک جماعت سے رابطہ کیا تھا قومی حکومت کے لئے، تاثر یہ دیا تھا کہ بڑوں کی تائید حاصل ہے تب پیپلز پارٹی آڑے آئی اور مرشد کا قومی حکومت کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جس کے وزیراعظم وہ خود ہوتے۔وہ دن ہے اور آج کا دن، غصہ ہے کہ کم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن پر 18سے 20کروڑ روپے میں تحریک انصاف کا فی رکن اسمبلی خریدنے کا الزام وزیراعظم نے خود لگایا تھا اب گزشتہ روز انہوں نے سوات کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا اسلام آباد کے سندھ ہائوس میں نوٹوں کی بوریاں موجود ہیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں اگر ماضی میں گورنر ہائوس، لانچوں اور گھروں کے تہہ خانوں کے علاوہ دودھ والے، پاپڑ والے، چنے والے کے اکائونٹس سے برآمد شدہ رقم کہیں محفوظ ہو تو کسی تاخیر کے بغیر سندھ ہائوس میں لگے دولت کے انبار بھی برآمد کرکے جمع تفریق کرلی جائے تو اور کچھ نہیں ایک سال کا ملکی بجٹ تو بن ہی سکتا ہے۔ بات تو فقیر راحموں کی درست ہے اگر ایک سال کا بجٹ اس رقم سے بن جائے تو پنجابی میں اردو بھگوکر بولنے والے ایک اینکر کے انکشاف کے مطابق کہ میاں نوازشریف 10ارب ڈالر ادا کرکے ملک سے باہر گئے تھے ، زرداری نے بھی7ارب ڈالر ادا کر دیئے ہیں، اس طور تو ملکی خزانے میں حکومت کی بتلائی رقم کے علاوہ بھی17رب ڈالر موجود ہونے چاہئیں۔ نوازشریف اور زرداری کی ادائیگیوں کا انکشاف کرنے والے صحافی اینکر خاصے دیندار قسم کے بندے ہیں، برسوں وہ جناب عمران خان کے اتالیق بھی رہے ہیں یقینا وہ بھی سچائی کا مجسمہ ہی ہوں گے۔ اب یہ حکومت بتائے کہ وہ17 ارب ڈالر کہاں ہیں جو نواز اور زرداری نے ادا کئے۔ چلتے چلتے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے حوالے سے کچھ عرض کرنا بھی ضروری ہے۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان تعاون و مفاہمت کے لئے پچھلے40برسوں سے جب بھی مذاکراتی عمل کا آغاز ہوتا ہے، کونوں کھدروں میں چھپے کچھ محب وطن اتاولے ہوئے دروغ گوئی کے ریکارڈ بنانے لگتے ہیں۔ آج کل ان محب وطنوں کو خود سے قصے کہانیاں گھڑنا بھی نہیں پڑتے، واٹس ایپ کے ذریعے متن موصول ہوجاتاہے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ذمہ داران کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے بعد ”واٹس ایپ دانش”کی باسی کڑی میں ابال آیا ہوا ہے۔ گو خواجہ اظہارالحسن نے ان دانشوروں کو پچھلی شب آئینہ دکھایا لیکن یہ نوکر پیشہ دانشور سنتے کسی کی نہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سندھ کی سیاست کے دو بڑے فریق تھے اور ہیں۔ تحریک انصاف تیسرے فریق کی حیثیت کی دعویدار ہے یہ حیثیت کس نے کیسے دلائی سبھی کو معلوم ہے۔ بہرطور ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو سندھ کے مشترکہ دشمنوں اور محمد بن قاسم بننے کے شوقینوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دونوں جماعتیں بھلے اپنے اختلافات کو ختم نہ کریں مگر سندھ کے وسیع تر مفاد اور عوام کی خدمت کے لئے اگر کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرسکیں تو اس میں دونوں کے حامیوں کا فائدہ ہے۔ دونوں کے حامی اور خود ذمہ داران یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ متحد ہوکر سیاسی عمل اور نظام کو آگے بڑھاتے ہیں تو تعمیروترقی کے نئے دور کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ لڑائی اور نفرت بہت ہوچکی، دونوں کو آگے بڑھنا چاہیے کسی ایسے سمجھوتے کی طرف جو سندھ کو ایک بار پھر امن و محبت کا گہوارہ بنادے۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ دونوں کا وجود سندھ کی سیاست میں ایک زندہ حقیقت ہے۔ حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ چسکے بازوں اور سندھ کے سماج میں نفرتوں کا زہر گھولنے والوں کے اپنے مقاصد ہیں۔ کیا ان مقاصد کو اس بات سے نہیں سمجھا جاسکتا کہ ایک وقت میں یونین کونسل کا ناظم منتخب نہ ہوسکنے والے پھر ایم این اے اور وزیر بھی بن جاتا ہے ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سیاسی و سماجی اتفاق رائے کا ماحول بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس میں سندھ کے ہر باسی کا فائدہ ہے۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل