گرگر بدّیا سرسر گیان

ماشاء اللہ تقربیاًساڑھے پانچ ماہ بعد پاکستان اپنی پلاٹینم جوبلی منائے گا ۔ اور اس حالت میں منائے گا جہا ں جنم دن سے صرف تجربات کی بوجھا ڑ لگی ہوئی ہے ،استحکام نظامت ملک بھی شروع دن کی طرح مجحوب ہی پایا جا ئے گا ۔ دنیا کا واحد ملک پاکستان ہے جس کے بارے میں اس کے معرض وجو د میں آنے سے قبل طے پا لیا گیا تھا کہ اس ملک کی نظامت کیا ہو گی مگر ہر دس سال بعد ایک نئی پخ نکال لی جا تی ہے ابھی عدم اعتماد کی تحریک گومگو کی کفیت میں لٹکی پڑی ہوئی ہے کہ شہبا ز شریف نے سیاست میں ایک جھپٹاما را کر عجیب پُن کا گیا ن دے دیا ہے ، فرما یا ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاست میں منفی کا درجہ دے کر ایک قومی حکومت بنائی جا ئے ۔ پہلے تو یہ بتایا جا ئے کہ قومی حکو مت ہو تی کیا شے ہیں ۔ اس کے نا م سے تو اس کی ترکیب وترتیب کا گما ن یو ں ہو تا ہے کہ ایک ایسی حکومت ہو جس پرقوم کو اتفاق ہو یا اس پر بھروسا ہو ، سیا ست میں گھس بیٹھے ارباب حل وعقد نے تو سیا ست کو وہ درجہ عطا کردیا ہے کہ پو ری قوم کا کسی سیا سی معاملے میں یکسو ہو نے کا امکا ن ہی نہیں بچا ہے ۔ پارلیمانی جمہو ریت ، اسلا می جمہو ریت ، اسی طرح دیگر طرز حکومت کی تشریحا ت یا تو موجو د ہیں یا پھر کر دی گئی ہیں پاکستان میں اس کی تعریف سیا ست کی کتاب میں درج ہے پہلے اس کو تو بیان کر دیا جائے ۔ابھی تحریک عدم اعتماد کو ٹھکا نا ملا نہیں کہ عوام کو قومی حکومت کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ۔جہاں سیا ست سے روا داری اٹھ جائے ۔ اصول ناپید ہو جائیں وہا ں قومی حکومت کا تصور بھی گن کی طرح مٹی مٹی ہو جائے گا ۔ یہ بات بھی حقیقت کے قریب تر ہے کہ چاہے چھو ٹی ہو یا بڑی ہو سب سیا سی جماعتوں کا اپنا اپنا دھیان و گیا ن ہو ا کر تا ہے جو ایک دوسرے سے متصادم بھی ہو سکتا ہے ۔اس کے علا وہ کیا پی ٹی آئی کو قومی حکومت سے باہر رکھ کر اس کے وجو د کو نفی کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ ہی اصل فریق بن کر مقابل کھڑی ہو گی ۔ملکی سیا ست جس انداز میںبٹ گئی ہے اس میں کسی قومی پارٹی کا وجو د قائم نہیں رہا۔ جن کو قومی جما عت کے زمرے میں شمار کیا جا رہا ہے وہ اب اپنے انتخابی حلقوں تک محدو د ہو چکی ہیں پی پی سندھ کی مقبول جما عت بن گئی ہے تو مسلم لیگ ن پنجا ب کی حد تک مقبول جماعت قرار پاتی ہے ۔ بلوچستان اور کے پی کے کا معاملہ بھی مختلف انداز کا نہیں رہا ۔اس لیے یہ امکا ن اپنی جگہ موجو د ہے کہ نئے انتخابات ہوئے تو کوئی ایک جماعت اس پو زیشن میں کا میا بی حاصل نہیں کر پائے گی کہ وہ پوری قوم کے منڈیٹ کادعویٰ کر پائے اسے بھی بھی پی ٹی آئی کی طرح بھا ن متی کا کنبہ جو ڑنا ہو گا ۔قومی حکومت کا تصور پا کستان میں نیا نہیں ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں جمہو ری نظام کبھی بھی نا کام نہیں ہو ا ۔ نا چلنے دیا جائے اس کو نا کا م ہو نا نہیں کہا جا تا ۔دوسرے یہ کہ غالباًچار پا نچ دہائیو ں سے قومی حکومت کے فلسفے کو ابھا ر ا جا رہا ہے شہباز شریف نے جو بات کہی ہے وہ کوئی نہیں ہے جس طرح پارلیمانی جمہو ریت پاکستان میں نا کا م نہیں رہی اسی طر ح پاکستان میں قومی حکومت کا تجر بہ کبھی کا میا ب نہیں ہو ا ۔ پاکستان کو قومی حکومت کے تجر بے سے کئی مرتبہ گزرار گیا ہے ہر فوجی آمر نے یہ نسخہ آزمایا ۔ ایو ب خان نے بھی قومی حکومت کے نا م پر اپنا جھنڈا گاڑا ۔ یحیٰ خان ، پھر جنرل ضیا ء الحق اور پھر پر ویز مشرف پاکستان کو قومی حکومت کے تجر بے سے گزار کر نا کا می کی طر ف لے جا چکے ہیں پاکستان ایسے تجر بے کا بار بار متحمل نہیں ہو سکتا ۔گو کہ قومی حکومت کا نا م تو دیا جا تا رہا ہے مگر یہ ٹیکنوکریٹ حکومت کا جھمیلامشرف کے دور میں ٹیکنو کر یٹ کا بکھیڑ نہیں کیا گیا تھا یہ شوکت عزیز ، معین قریشی کس طبقہ کی نمائندگی کر تے تھے ان کو عوام کا منڈیٹ حاصل نہیںتھا وہ ٹیکنو کر یٹ کے نمائند ے تھے آج شوکت ترین کہا ں سے آئے یا لائے گئے ہیں ما ضی کے ان تجر با ت سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ٹیکنو کریٹ یا قومی حکومت دراصل سیا سی جما عتوں کو دور رکھنے کا حربہ ہیں ۔ اگر قومی حکومت کی طرز یہ ہوکہ سیاسی جما عتیں الیکشن میں جائیں اور ان میں سے جس جس جما عت کو پارلیمنٹ میں نمائندگی ملے اس سے اکثریتی جما عت کا وزیر اعظم منتخب کیا جائے اوروہ وزیر اعظم اسمبلی میںموجو د دیگر سیا سی جما عتوں کو حکومت میں شریک کرئے ۔پی پی ٹی آئی کو چونکہ حکومت سازی کا منڈیٹ نہیں ملا تھا چنا ں چہ اس نے اپنی اکثریت بنانے کے لیے سیا سی جماعتوںکو قومی حکومت کی غرض سے نہیں بلکہ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیا د پر شریک اقتدار کیا تھا اور اب جب یہ وقت پی ٹی آئی کو دیکھنا پڑ رہا ہے تو اقتدار کا کنبہ اپنے اپنے منڈیٹ سے سوا طلب کر رہے ہیں ۔یا د رکھنے کی بات یہ ہے کہ ماضی میںاسی قومی یا روا داری کی حکومت کا تجر بہ پی پی اور مسلم لیگ ن نے مل کر کیا تھا ، لیکن دو تین ماہ اکٹھے رہ کر مسلم لیگ ن وفاقی حکومت سے الگ ہو گئی تھی وجہ وہی سیا سی ہم خیالی کا فقدان تھا ، پنجا ب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی جہا ں پی پی کو بھی نمائندگی میثا ق جمہوریت کی بنیا د پر دی گئی تھی ۔ لیکن پی پی مسلم لیگ ن کی طر ح پنجا ب حکومت سے نہیں نکلی وہ حکو مت میں شامل رہی ۔ گو یا یہ تجر بات ہو تے رہے ہیں ان کو مختلف نا م دیئے جا تے رہے ہیں ۔پا کستا ن کا اصل مسلئہ سیا سی افر اتفری نہیں ہے بلکہ اختیا ر ات نہ رکھنے کے باوجو د سیا ست میں گھس بیٹھنے والو ں کا ہے ۔ پچھتر سال گذرگئے ہنو ز یہ گیا ن وان ہی نہیںہو پا یا کہ ہما را مستبقل ہے کیا ۔ پلاٹنیم جوبلی آرہی ہے اب تو ارباب اختیار کو کا ن ہو جانا چاہیں اور یہ ایقان بھی کر لینا چاہیے کہ ہما را بھی اورہما ری نسل کا مستقبل صرف اور صرف اسی سرزمین سے وابستہ ہے ۔اب اس کو مزید تجر بہ گاہ نہ بنایا جائے ۔ اس کا واحد ایک ہی ہے کہ دستور پاکستان پر من وعن عمل پیر ا ہو ا جائے ۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل