دستور کی پابندی ،موجودہ صورتحال کی متقاضی

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو ہدایت کی ہے کہ وہ21مارچ کو ایوان زیریں کا اجلاس بلائیں اور پی ٹی آئی کے ممکنہ ”لوٹوں”کے خلاف کارروائی کریں۔انہوں نے یہ ہدایات سندھ ہائوس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تقریباً ایک درجن اراکین قومی اسمبلی کی موجودگی کا علم عام ہونے کے بعد دیں۔ بعض آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرانے کے بعد اسپیکر کو ایوان کے نگران کی حیثیت سے وزیر اعظم کے بلائے گئے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس وقت سندھ ہائوس میں موجود حکومتی ببینچز کے اراکین نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور آئین کے آرٹیکل 63کے تحت پارٹی سربراہ ان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں دستور میں آرٹیکل میں وضاحت کی گئی ہے کہ جب کوئی پارٹی کا رکن پارٹی فیصلے سے انحراف کا مرتکب ہوگا تو پہلے پارٹی کا سربراہ اس رکن کو اظہار وجوہ کا ایک نوٹس جاری کرے گا، جس میں الزام بیان کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ کیوں نہ اس کی نااہلی کا اعلان کیا جائے۔اندازہ یہی ہے کہ اگر پارٹی سربراہ کی جانب سے دی گئی ایک معینہ مدت کے دوران منحرف رکن جواب نہیں دیتا یا پارٹی سربراہ کو مطمئن نہیں کرتا تو اس کے بعد پارٹی سربراہ تحریری اعلان کرے گا کہ فلاں رکن پارٹی سے منحرف ہوچکا ہے لہذا اسے نااہل قرار دیا جائے۔ اس طرح کا اعلان اسپیکر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دیا جائے گا۔آئین سے متعلق حکومت اور اپوزیشن کی اپنی اپنی تشریح موجود ہے۔ اگر ووٹنگ کے دوران ایسا کوئی عمل ہوا جس پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف پیدا ہوجائے تو یقینی طور پر آئین کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، اور حکومت شاید یہی چاہتی ہے تاکہ اسے مزید کچھ ماہ مل جائیں۔2010سے فلور کراسنگ کے خلاف شق کو آئین میں شامل کئے جانے کے باوجودآج تک کسی بھی رکن کو اس کے تحت ا لیکشن کمیشن کے ذریعے ڈی سیٹ نہیں کرایا جاسکا کیونکہ پارٹی چھوڑنے والے ارکان آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہی ڈی سیٹ کئے جانے سے پہلے ہی مستعفی ہو کر ایوان چھوڑ جانا مناسب سمجھتے ہیںتازہ ترین صورتحال میںحکومتی اراکین اسمبلی نے باقاعدہ میڈیا پر آکر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے کا ا علان تو کردیا ہے لیکن قانونی طور پر ان کے خلاف اس وقت ہی کارروائی ہو سکتی ہے جب وہ عملی طور پر ایوان کے اندر جا کر اس فعل کا ارتکاب کر لیں گے ۔ پارٹی قیادت سے ا ختلاف اور تنقید تحریک انصاف کے بعض اراکین کی جانب سے پہلے سے ہوتی رہی ہے ایک رکن اسمبلی نے ایوان میں کھڑے ہو کر پہلی تین قطارکی نشستوں پر بیٹھنے والے عہدیداروں پربرملا تنقید کرچکے ہیں جن کے خلاف ہنوزسوائے شوکاز نوٹس کے کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے ایسے میں سندھ ہائوس میں موجودمتعدد اراکین اسمبلی کے خلاف ایوان کے اجلاس میں باقاعدہ طور پر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کئے بغیر کسی کارروائی سے صورتحال الجھ جائے گی اور معاملات تشریح کے لئے عدالت لے جانا پڑے گا۔ایسے میں ممکنہ طور پر سوائے کچھ دنوں کی مہلت کے اور کچھ حاصل نہیں ہو پائے گا۔ گزشتہ روزاراکین پارلیمان کے سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم ایوان سے باہر اعتماد کھو چکے ہیں ابھی اتحادیوں کی بیساکھیا ں بھی کسی کام کی نہیں رہیں۔پاکستان میں حکومتیں اسی طرح بنتی اور ختم ہوتی آئی ہیں موجودہ حکومت کے قیام میں بھی وہی روایتی طریقہ اختیار کیاگیا تھااور اب انہی عناصر کے ہاتھوں حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار ہو رہی ہے یہ بات نوشتہ دیوار تھی ۔وزیر اعظم عمران خان نے 2018ء میں ان کو قبول کرکے خود ہی اپنی حکومت کو کمزور کرنے اور اس کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی تھی جب تک وطن عزیز کی سیاست میں اس طرح کی غلطیاں ہوتی رہینگی کوئی بھی حکومت مستحکم نہیں ہو سکے گی اسے مکافات عمل سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کے لئے بہتر راستہ یہی ہے کہ صورتحال کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کریں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو آئین و قانون کے دائرہ کار سے باہر ہواقتدارآنی جانی چیز ہے سدا کی بادشاہی صرف ایک ذات عالی ہی کی ہوتی ہے محولہ حالات میں صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی صفوں میں شامل افراد پر نظر نہ رکھنے ان سے بات بنائے اور ساتھ ملا کے نہ رکھنے کی غلطی اب صورت نادر سامنے ہے بہرحال اب غلطی کا ازالہ کرنے کا موقع شاید باقی نہیں رہاسوائے اس کے کہ حکومت مزید کوئی غلط قدم اٹھا کر تصادم کی راہ ہموار نہ کرے نمبرگیم کا فیصلہ کن موڑ آچکا ہے اس وقت وزیر اعظم کے بعض ساتھی صدارتی نظام اور سندھ میں گورنر راج قائم کرنے کا جو مشورہ دے رہے ہیں اس پر عملدرآمد جلتی پر تیل کاکام کرنے کے مترادف ہو گا اس سے حکومت کی پریشانی اور مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگا۔مناسب قدم یہی ہے کہ اس تماشے کو مزید نہ بڑھایا جائے اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے معاملات کو ایوان کے اندر پرامن طریقے سے نمٹا لیا جائے ۔اس تمام صورتحال سے نکلنے کے لئے اور حکومت بچانے کے لئے جوتجویز دی جارہی ہے وزیراعظم اگر اس پر غور کریں تو شایدصورتحال میں کچھ بہتری آئے لیکن وزیر اعظم کے مزاج اور اطوار سے نہیں لگتا کہ وہ اس تجویز کو وقعت دیں گے ۔وزیر اعظم جو بھی سیاسی فیصلہ کرتے ہیںیہ ان کی صوابدید ہے لیکن جو بھی فیصلہ کرے وہ ایسا ہونا چاہئے کہ صورتحال سے نکلا جائے اور ملک انتشار اور تضادات کا شکار نہ ہوایسا اسی وقت ہی ممکن ہو گا جب آئین و دستور کی خود ساختہ تشریح نہ کی جائے بلکہ دستور میں موجود واضح طریقہ کار پر من و عن عملدرآمد کیا جائے آئین و قانون پر عملدرآمد سے ہی تضادات ‘ تصادم اور انتشار کی کیفیت سے بچنا ممکن ہوگا۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل