عدم اعتماد،خطرات و خدشات

جوں جوں 28مارچ کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے توں توں عدم اعتماد کی تحریک میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے ۔حکومت اور اپوزیشن کے مابین تند و تیز بیانات کی تلخی بھی بڑھتی جا رہی ہے بلکہ اب یہ سلسلہ ذاتی اختلافات سے ہوتا ہواتشنیع و تضحیک تک جا پہنچا ہے جسکا تمام تر ذمہ دار وزیراعظم کو گردانا جا رہا ہے جنہوں نے عوامی جلسوں میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف طنز و تشنیع کے نشتر چلاتے اور انکے نام بگاڑتے ہوئے جس طرح ابتدا کی اس نے معاشرے کے تمام سنجیدہ حلقوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا حتیٰ کہ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور معروف مذہبی سکالر مفتی تقی عثمانی کو بھی اس روش کو روکنے کیلئے سورہ الحجرات کی آیات کا حوالہ دینا پڑا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ انکی تنبیہہ کے باوجود عمران خان کی اس روش کا سلسلہ جاری و ساری ہے بلکہ دن بدن اس میں اور بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔اسکے جواب میں بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن بھی کاٹ دار جملے ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم ایسی گفتگو سے احتراز کرنا چاہئے تاکہ سیاسی فضا مکدر نہ ہو۔اگرچہ ق لیگ کے رہنما پرویز الہیٰ کے ٹی وی انٹرویو سے تحریک عدم اعتماد کی صورتحال واضح ہو چکی ہے اور نمبرز گیم کا بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اب کھیل حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور تحریک عدم اعتماد صرف رسمی تقریب رہ گئی ہے جسے 28مارچ کو پورا کرنا ہے۔اگرچہ اس انٹرویو کے بعد بھی چوہدری پرویز الہیٰ ابھی تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کر رہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں یا اپوزیشن کا حصہ بن چکے ہیں بلکہ ابھی تک بھی وہ یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ وہ ویسے حکومت کا حصہ ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں وہ اپنا فیصلہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ سوچ سمجھ کر کریں گے تو اسے بعض لوگ انکی چال سے تعبیر کر رہے ہیں کہ وہ شاید آخر میں حکومت کے ساتھ اتحاد کا اعلان کر دیں گے کیونکہ عمران خان اور شیخ رشید کئی دنوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپوزیشن کیلئے جال بچھایا تھا جس میں وہ برح طرح پھنس چکی ہے اور اتحادی ہر حال میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم ابھی تک اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیوں نہیں کر رہی اور دونوں پارٹیاں گو مگو کی کیفیت میں کیوں مبتلا ہیں لیکن میری ناقص رائے کے مطابق دونوں پارٹیوں کے معاملات طے پا چکے ہیں حتیٰ کہ عہدوں کی تقسیم اور آئندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی اتفاق ہو چکا ہے لیکن اعلان نہ کرنے کی بڑی وجہ آئندہ ہفتے ہونے والی اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کا انعقاد ہے اور ملکی تشخص کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے اس سے پہلے اعلان نہیں کیا جا رہا کیونکہ حکومتی مینڈیٹ ختم ہونے کے تاثر سے بیشتر غیر ملکی مہمان آنے سے احتراز کریں گے جو ملک کیلئے سود مند نہیں جیسا کہ ابھی میڈیا میں آیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث ایک اہم برادر اسلامی ملک کے سربراہ کی آمد کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ورنہ پرویز الہی اپنے انٹرویو میں وزیراعظم کے خلاف جو انکشافات کر چکے ہیں اور حتی کہ اپنے بیٹے کی گرفتاری کے احکامات کے متعلق بھی بات سے گریز نہیں کیا تو اسکے بعد کسی شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔ فی الحال جو خطرہ نظر آ رہا ہے وہ انارکی اور انتشار کا ہے کیونکہ حکومت 27مارچ کو اسلام آباد میں ڈی چوک پر دس لاکھ مجمع اکٹھا کرنے کی کال دے چکی ہے اور عمران خان پورے ملک سے اپنے پارٹی ورکرز کو یہاں پہنچے کی دعوت دے رہے ہیں جسکے جواب میں ن لیگ اور جے یو آئی نے بھی ڈی چوک پر بڑا جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ایک اہم حکومتی وزیر نے تو ببانگ دہل کہہ دیا ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ کیسے کوئی رکن اسمبلی ہمارے مجمع کے سامنے سے گزر کر پارلیمنٹ ہاؤس جاتا ہے تو اسکے جواب میں ن لیگ کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ ہمارے لوگ ووٹ ڈالنے والے ہر رکن اسمبلی کی حفاظت کریں گے۔دونوں طرف سے جلسوں کے اعلان نے پورے ملک کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں عدم اعتماد کی تحریک نے عمران خان اور شیخ رشید دونوں کو اس حد تک حواس باختہ کر دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ہاتھ میں اقتدار جانے کی بجائے کسی تیسری قوت کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ جمہوریت کی بساط ہی لپٹ جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے گی بانسری۔یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید تسلسل سے اپوزیشن کو یہ کہہ کر ڈرانے میں مصروف ہیں کہ یہ نہ ہو کہ عدم اعتماد عدم استحکام بن جائے اور انہیں دس سال اور انتظار کرنا پڑجائے لیکن سنجیدہ اور ملک کا درد رکھنے والے لوگ اس عدم استحکام کا ذمہ دار وزیراعظم کو ٹھہرا رہے ہیں جو وزیراعظم کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیںاور ملکی تاریخ میں ایسا پہلے بار ہونے جا رہا ہے کہ ایک وزیراعظم تحریک عدم اعتماد والے دن کنٹینر پر کھڑے ہو کر اپنی ورکروں سے خطاب کرے گا۔

مزید پڑھیں:  جعلی ڈرائیونگ لائسنس ،نیا سکینڈل