مشرقیات

کراچی کے بھائی لوگ بھی کپتان کے قافلے کو چھوڑ چلے ،آپ لکھ کر رکھ لیں کہ اب ان کی باری ہے جو تھے تو کپتان کے ہم سفر تاہم ابھی تک خاموشی سے تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھوکی پالیسی اختیار کئے ہوئے تھے وہ بھی اب اصولوں کی خاطر جہاں جگہ ملے بکنگ کر ا لیں گے، تاہم سوال یہ ہے کہ جن کا سورج سوا نیزے پر ہے وہ چڑھتے سورچ کے بچاریوں کو کس حد تک کھپا سکتے ہیں ،سنا ہے ان کے اپنے وہ ساتھی جو وفا داری بشرط استواری اب تک اپنی اپنی جماعتوں سے جڑے ہوئے تھے وہ نئی بکنگ سے خاصے پریشان ہیں پریشانی سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے باقاعدہ اپنی قیادت سے شکایتیں شروع کر دی ہیں کہ اچھے برے وقت میں مارکھانے کے باوجود وہ پارٹی سے جڑے رہے اور اب جب پھل کھانے کا وقت آیا ہے تو ان کے حریفوں کو سینے سے لگایا جارہاہے ،آپ اس کی تازہ ترین مثال ساڑھے تین سال تک کپتان کی کابینہ میں وزارت کے مزے لینے والے چیمہ صاحب کی لیں ،انہیں کپتان سے اصولی اختلاف یہ تھا کہ کپتان نے ان کے حلقے سے ایک ایسے امیدوار کی گرومنگ شروع کر دی تھی جو خاصا تگڑا ہی نہیں انہیں زیر کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے بس پھر کیاتھا انہوں نے اپنی جماعت تک کو کپتان کی کشتی سے اتارنے کے لیے پورا زور لگا لیا یہ زور زبردستی ہی تھی کہ گجرات کے چوہدری اتنی لمبی سوچ بچار میں مصروف رہے کہ یارلوگوں نے افواہ اڑا دی کہ کہیں ق لیگ والے وزارت اعلیٰ کی بجائے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا مطالبہ نہ داغ دیں بہرحال خیر ہو گئی اور معاملہ وزارت اعلی ٰ پر ہی ٹل گیا ،اب دیکھنا یہ ہے کہ گجرات کے چوہدری کس طرح پنجاب کی پگ اپنے سر رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں ادھر اپوزیشن جماعتوں نے اس پگ کے لیے ہر حربہ آزمانے کا فیصلہ کر لیاہے مسئلہ یہ ہے کہ حکمران جماعت کے ایم پی ایز کی ایک بڑی تعدا د دوچارگروپوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان ہی گروپوں کے ہوتے ہوئے اپوزیشن کو یقین ہے کہ وہ اپنا بندہ پنجاب میں بھی کامیا ب کرا لیںگے ،بات ہو رہی تھی ان جماعتوں کے وفاداروںکی جو ہر حال میںاپنی قیادت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں تاہم اب جب کہ ان جماعتوں کو کار سرکار ہاتھ آیا ہے تو ان وفاداروں سے آنکھیں چرا کر ان بے وفائوں کو گلے لگانے کی تیاری کی جارہی ہے جو لوٹے کی مانند لڑھکتے رہتے ہیں۔آج کل اپوزیشن جماعتوں نے لوٹے جمع کرنے کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے ،اس سے قبل کپتان بھی یہ دھندہ کر چکے ہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ کے لیے یہ دھندہ رک جائے گا ،اس لیے جو وفادار ہیں انہیں بھی ایک سبق مل گیا ہے کہ وفا کا اس بازار میں کوئی مول نہیں مول لگانا ہے تو بے وفائی کی خو بو اپنالیں۔

مزید پڑھیں:  حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے