ناقابل یقین سنگین واقعہ

وطن عزیز میں ہر چند ماہ میں مذہب کے نام پر اس طرح کی وارداتیں ہو جاتی ہیں کہ انسان کانپ اٹھتا ہے ہر واقعہ پہلے سے مختلف اور لرزہ خیز ہوتا ہے لیکن الزام کم و بیش و تقریباً ایک ہی جیسا لگتا ہے جس کی حقیقت وعدم حقیقت جانے بغیر کسی کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کی جان لے لی جاتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے انتہا پسندی کی بھی انتہا کی جاتی ہے ۔ڈیرہ اسماعیل خان میں مدرسے کی تین طالبات کا ایک خواب کی بنیاد پر مدرسے ہی کی معلمہ کو گستاخ قرار دے کر ذبح کرنے کا واقعہ جہالت اور انتہا پسندی کا ایسا بدترین واقعہ ہے جس پر کوئی رائے دینا بھی ممکن نہیں، اس سے پہلے اس طرح کے واقعات میں تو اکثر مرد ہی ملوث ہوتے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ اس طرح کے واقعات میں خواتین کا کردار بھی ہونے کی مثال موجود ہے یہ پہلا واقعہ ہے جس کے سارے کرداروں کا تعلق صنف نازک سے ہے یہ ایک ایسا ناقابل یقین واقعہ ہے کہ اس کے ہونے کے باوجود یقین نہیں آتا کہ تین طالبات مل کر مدرسے کے سامنے ایک معلمہ کو ذبح کر سکتی ہیں۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور موقع پر کوئی موجود تھا یا نہیں اس سے قطع نظر اس واقعے کی جو بنیاد بتائی گئی ہے وہ حد درجہ مضحکہ خیز اور افسوسناک ہے سوائے نبی کے خواب کے علاوہ کسی بھی انسان خواہ وہ کتنا ہی برگزیدہ کیوں نہ ہو ان کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے کہ اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا جا سکے یا کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے البتہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ رب کائنات کے ایسے بندے ضرور موجود ہوں گے جن کو سچے خواب آتے ہوں گے جو رب کائنات اور ان برگزیدہ ہستیوں کے درمیاں کا راز ہے شرعی اور قانونی طور پر اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں کہ خواب کی کی بنیاد پر الزام لگا کر کسی کی جان لی جائے یہ خالصتاً لاعلمی، جہالت اورانتہا پسندی کی بھی انتہا ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اگرتوہین کا کوئی واقعہ ہو بھی تو ملزم کو سزا دینا کسی فرد واحد یا گروہ کی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی ان کو حق حاصل ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے اس ضمن میں بھی یقینا جید علمائے کرام اسی موقف کا اعادہ کریں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علمائے کرام کی جانب سے سمجھانے کے باوجود اس طرح کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں اس مرتبہ تو قاتل و مقتول دونوں ہی دین کی تعلیم و تعلم سے وابستہ خواتین تھیں یہ درست ہے کہ کسی انفرادی فعل اور واقعے کو پوری برادری اور طبقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا مناسب اور قرین انصاف ہے اس کے باوجود ہم جملہ علمائے کرام سے اس سنگین واقعے پر غور کرنے اور اس طرح کے واقعات کے تدارک کے حوالے سے اپنے احسن کردار کا اعادہ کرنے کی گزارش کریں گے ۔ اگرچہ طالبات کے مدرسے میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ ہے لیکن اس کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ اس حوالے سے پہلے سے الزام تراشی پر تیار عناصر کو موقع ضرور میسر آئے گا اس طرح کے واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہوگا اس حوالے سے مختلف فورم پر مکالمہ اور تجاویز مرتب کرکے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیارکیا جائے تو موزوں ہوگا۔
احترام رمضان کے حوالے سے فیس بک کا احسن فیصلہ
رمضان المبارک پر فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا کی جانب سے اپریل کے مہینے کو گڈ یعنی اچھائی کے مہینے کے طور پر منانے کا اعلان اور رمضان المبارک کی مناسبت سے دنیا بھر میں مثبت طریقے سے اثرانداز ہونے والی اسلامی کہانیاں شیئر کرنے کا پروگرام احسن قدم ہوگا ۔ سوشل میڈیا کا مثبت اور منفی استعمال صارفین انفرادی طور پر توکرتے آئے ہیں لیکن بطور ادارہ کمپنی کی جانب سے کبھی بھی اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا رمضان المبارک کی آمد پر اسے اچھائی کے مہینے کے طور پر منانے کا فیصلہ بالعموم اور مسلمانوں کے لئے خاص طور پر خوشی کا باعث امر ہے ۔جہاں تک فیس بک کے معمول کے استعمال کا تعلق ہے مختلف گروپوں اور انفرادی طور پر اسلامی معلومات اور اصلاحی مواد شیئر کرنے اور ان معلومات کے حصول کے لئے ان سے وابستگی کا موقع پہلے ہی سے موجود ہے جس کا فائدہ اٹھانے والے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں فیس بک کی جانب سے بطور ادارہ اس طرح کی کوشش اچھی روایت ہے جسے نہ سراہنے کوئی وجہ نہیں توقع کی جانی چاہئے کہ یہ ایک اچھا قدم ثابت ہوگا اور اس کی مقبولیت کے پیش نظر فیس بک انتظامیہ مستقل طور پر یہ سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔
کس کو دوہائی دیں؟
مفتی محمود فلائی اوور کے آہنی جنگلوں کی چوری کی قبل ازیں مشرق کی جانب سے نشاندہی کے باوجود متعلقہ حکام ٹس سے مس نہ ہوئے تازہ خبر کے مطابق جنگلوں کا تین چوتھائی لوہا چوری ہوچکا ہے شہری املاک کی تباہی کا کسی بھی جانب سے نشاندہی کے باوجود سخت نوٹس کیوں نہیں لیا گیا اور اس کے تدارک کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے ویسے یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ شہر کے مختلف حصوں کے پارکوں اور دیگر سرکاری عمارتوں کے ارد گرد کے جنگلے کاٹ اور اکھاڑ کر کباڑ میں فروخت کرنے کا عمل پوری طرح جاری ہے یہاں تک کہ حیات آباد میں پولیس چوکیوں کو بھی نہیں بخشا گیاچاردیواری کے اوپر جنگلے اور خار دار تاریں چوری کرنے کے بعد اب حیات آباد کی چاردیواری کے اینٹ جگہ جگہ سے اکھاڑ کر بیچنے کا عمل جاری ہے ۔ہے کوئی جو اس کا نوٹس لے۔

مزید پڑھیں:  خود کو بدلیں