قومی سلامتی کا معاملہ

تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ اس وقت ملکی سطح پر مبینہ خط اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اسے اگر پراسرار خط کا نام دیا جائے تو مناسب اس لئے ہو گا کہ ابھی تک اس حوالے سے پراسراریت برتی جا رہی ہے اور اس نوعیت کے اہم معاملے کے حوالے سے ”صاف چھپتے بھی نہیں اور نظر آتے بھی نہیں” والا معاملہ برتا جا رہا ہے یہ خط کئی سوالات کا باعث ہے قطع نظر اس کے کہ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کیا آتا ہے اس خط کے حوالے سے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانا قومی ذمہ داری ہے۔ مخمصہ یہ ہے کہ اس امر تک کی تصدیق نہیں ہوتی کہ خط بھیجنے والا کون ہے یہ کس قسم کا مراسلہ ہے اور سفارتی دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت کیا ہے آیا یہ معمول کے سفارتی مراسلات سے کہیں بڑھ کر مختلف اور سخت ہے ان تمام سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ ایک مفروضے اور غیر تصدیق شدہ معاملے کے علاوہ کچھ نہیں، اس طرح کے مراسلات وزارت خارجہ کے ذریعے باقاعدہ ایک طریقہ کار کے تحت موصول اور وزارت خارجہ کی جانب سے اعلیٰ حکومتی شخصیات کو بھیجے جانے کا طریقہ کار موجود ہے جس میں سے وزیر اعظم کا آفس بھی شامل ہے ایسے میں اس پر دیگر حکام کی جانب سے کوئی بھی تبصرہ تو درکنار تصدیق و تردید سے بھی احتراز برتا جا رہا ہے، بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہ ان کا نہیں خیال کسی کو دکھایا جا سکتا ہے اس کے باوجود حکومت اسے چیف جسٹس کو دکھانے کے لئے بضد ہے حالانکہ اس حوالے سے عدالت اور عدلیہ کا کوئی کردار نہیں بنتا، البتہ حکومت اگر اس حوالے سے سنجیدہ ہے تو اس بارے میں عدالتی کمیشن تشکیل دینے کے لئے رجوع کر سکتی ہے لیکن اس سے بھی احتراز برتا جا رہا ہے حالانکہ میمو گیٹ سکینڈل میں قبل ازیں اس طرح ہو چکا ہے ساتھ ہی ساتھ مناسب فورم قومی سلامتی کمیٹی کا ہے جس کے سامنے خط رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے یا پھر پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس بھی مناسب فورم ہے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے عسکری قیادت کو بھی اس طرح کے مراسلات سے باقاعدہ سرکاری طور پر آگاہ کیا جاتا ہے اس حوالے سے جب عسکری ترجمان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے اس حوالے سے حکومت سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا، جاری ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بالخصوص اور علاوہ ازیں بھی اس طرح کے معاملات کی ناک پکڑ کر سیاست سے ملانا ہمارے ہاں مروج رہا ہے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی سیاست میں بیرونی سازش اور بیرونی مداخلت بالخصوص ایک بڑے ملک کی مداخلت جیسے عوامل کا تذکرہ اور الزام تراشی معمول کی بات ہے اس خط میں لندن میں مقیم ایک اعلیٰ شخصیت کو بھی ملوث قرار دیا جا رہا ہے ان تمام عوامل سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف مبینہ سازش کرتے ہوئے وزارت خارجہ کی وساطت سے اسی حکومت کے نام خط لکھ کر سازش کرنے کی سادہ لوحی کی ضرورت کیوں پڑی، کیا ایسا ممکن ہے؟ جب تک اس حوالے سے مکمل تفصیلات کا علم نہیں ہوتا اور خط کے مندرجات سامنے نہیں آتے اس وقت تک اس حوالے سے کچھ کہنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ سازش خفیہ ہوتی ہے اگر یہ واقعی سازش تھی تو اسے تحریری طور پر حکومت کو آگاہ کرنے کی مصلحت کیا تھی بھاری رقم کس کے ذریعے آئی، کس کے ذریعے تقسیم ہوئی اور اس سے استفادہ کرنے والے کردار کون کونسے ہیں اس سب کو سامنے لائے بغیر اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ محولہ تمام عوامل اس امر پر دال ہیں کہ یہ ایک مشکوک معاملہ ہے جس کے حوالے سے پہیلیاں بھجوانے کی بجائے راست اقدام کرنے کی ضرورت ہے اگر واقعی ایسی کوئی سازش ملک و قوم کے خلاف کی گئی ہے تو اسے مل کر بے نقاب اور اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے جس کے لئے کسی قسم کے اختلاف اور تضاد کی گنجائش نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اس مبینہ خط کو حزب اختلاف نے اخبارات میں شائع کروانے کا اعلان کیا ہے جس پر عمل درآمد کی نوبت آنے یا نہ آنے سے قطع نظر یہ ایک بڑا واضح موقف ہے اس حوالے سے پہل کیوں نہیں کی جاتی اور ایسا کیا امر مانع ہے کہ ایک جانب سازش کرنے کا تو ببانگ دہل اعلان کیس جا رہا ہے اور دوسری جانب اس حوالے سے نہایت کمزور اور ناقابل قبول رویہ اختیار کرکے قوم کو شکوک و شبہات میں مبتلا کیا جا رہا ہے ۔ اس سے بہتر موقع نہیں کہ خط کو سامنے لا کر من حیث القوم اس بارے کوئی ٹھوس فیصلہ کیا جائے اور اس کامناسب جواب دیا جائے۔

مزید پڑھیں:  صنعتی ،تجارتی شعبوں کی شکایات