ترپ پتّاتڑپ پتّا

کڑکٹ کے کھیل میں باؤلنگ کے کئی پہلو ہو تے ہیں ، ان میں سے ایک پہلو ”نوبال” کہلا تا ہے ۔ جس کے پڑنے ٹیم کو ایک رن کا ڈنڈت پڑجا تا ہے جتنے نو بال کھیلائے جا تے ہیں اتنے ہی میچ کھیلنے والی ٹیم کوفاضل رنز مل جایا کرتے ہیں اسی طرح ہاکی اور فٹ بال کے کھیل میں فاؤل کھیلنے پر مخالف ٹیم کو پلنٹی مل جا تی ہے کچھ ایسا ہی کھیل ان دنوں سیا ست میں ہو رہاہے کہ تحریک انصاف مسلسل نوبال کررہی ہے ۔جس کی بناء پر اپوزیشن کورنز میں برتری ملتی جا رہی ہے ۔ کھیل کی چال یہ بتائی جا رہی ہے کہ خان آخری بال تک کھیلیں گے ، اگر آخری بال بھی” نو بال ”پڑ گیا تو پھر کھیل میں باقی کیا رہ جائے گا ۔تحریک انصاف کے عمر انی مزاج شنا س دعویٰ کررہے ہیں کہ خان صاحب کے پا س ترپ کے پتے ہیں جس کو وہ کھیلیں گے تو بازی ہی الٹ دیںگے مگر مشاہدہ یہ کہہ رہا ہے کہ حالت ایں جا رسید کہ ترپ کا پتّا کھیلنے کی بجائے تڑپ کا پتّا کھیلا جا رہا ہے ۔ اس وقت باؤلنگ میں وفقہ پڑ گیا ہے تاہم ترپ چال یہ یو ں کہہ لیجئے تڑپ چال اس مبینہ پتر کی چلی جا رہی ہے جس کو پبلک میں لہر ا کر محجو ب الخلقت کر دیا گیا ۔پھر راز داری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔آسانی ایک وکیل صاحب نے پیدا کردی کہ عدالت سے ترت حکم حاصل کرلیا کہ راز داری کے قانون کے تحت اور اپنے حلف رازداری کی بنیا د پر اس مبینہ خط کو ملفوف رکھاجا ئے ۔جہا ں تک خط کا تعلق ہے اس بارے میں صاحب رائے حضرات کی اپنی اپنی آراء ہیں ۔ اپو ز یشن کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے اگر سچ ہے تو خط پارلیمنٹ میںپیش کیاجائے ۔ اگرپارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا تو دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا ۔ یہ خبر یں آرہی ہیں کہ حکومت اس خط کو پارلیمنٹ میں لا نے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ سفارتی امو ر کے ماہر ین کی اپنی الگ سی رائے ہے کہ کوئی سرکا ری افسر ایسی دھمکیا ں نہیں دیا کرتا ، اس کا سفارتی طریقہ کا ر دوسری قسم کا ہے ۔ پاکستان کے ایک سابق سفارت کا رعبدالباسط جو بھارت میںپاکستان کے سفیر کی حثیت سے فرائض بہت عمد گی سے نبھا چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسی دھمکیا ں اتنے نیچی سطح پر فائز افسر کے ذریعے نہیں دی جا سکتیں ۔ انھو ں نے ایٹمی دھما کا نہ کر نے کے عوض مراعات کی پیش کش کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی جڑ دی تھی ، نو از شریف نے بل کلنٹن کی کسی بات پر توجہ نہ دی اور ایٹمی دھما کا کیا ، نو از شریف اس کے بعد بھی برسر اقتدار رہے ان کے اقتدار کو کوئی زد نہیں پہنچی ۔ پرویز مشرف نے جو اقتدار ان سے بزور قوت ہتھیایا اس کو بل کلنٹن کی دھمکی سے نہیںجو ڑا جا سکتا کیو ں کہ وہ پرویز مشرف کا اپنا فعل تھا ، جب پرویز مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلا تو بھی کہیں اس سے بل کلنٹن کی دھمکی جڑی نہ ملی ۔مبینہ خط کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کے ایک سابق سفارت کار کی جانب سے لکھا گیا ہے ۔جو گزشتہ رواں سال کے ما رچ کی 25تاریخ کو اپنے عہد ے سے سبکدو ش ہوئے ہیں وہ امریکا میں پا کستان کے سفیر کے فرائض انجا م دے رہے تھے ، انھو ں نے جو خط بھیجا ہے ایسے خطوط سفارت کار اپنے اپنے ممالک کو بھیجا کر تے ہیں جن میں جا ری حالات کے پس منظر میں اپنی آراء کا اظہا ر ہو تا ہے تاکہ ان کو پرکھ لیا جائے اور آئند ہ کی پالیسی میں اس کو مد نظر رکھا جائے ایسے خط کو عموماًکیبل ڈپلو میسی کا نا م دیا جاتا ہے ۔ سفارت خانہ اس طرح کے خط سیکرٹری خارجہ کو بھیجا کرتے ہیں اور سیکرٹری خارجہ ضرورت کے مطابق بالا عہد ے داروں کو روانہ کر دیتے ہیں اس خط کی دوسری قسم یہ ہے کہ سفارت کا ر ایسے نوعیت کے خط سیکرٹری خارجہ کے علا وہ وزیر خارجہ کو بھی براہ راست روانہ کردیتے ہیں اس سے بڑھ کر اہم نوعیت کا ہو تو پھر خط سیکرٹری خارجہ ، وزیر خارجہ ، وزیر اعظم ، اور صدر مملکت کو بھی براہ راست بھیجا کر تے ہیں ۔ بہر حال خط کی وجہ سے کا فی الجھا ؤ پیدا ہو ا ۔ اب شنید ہے کہ وزیر اعظم نے قومی سلا متی کو نسل کا اجلا س طلب کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ، جس سے تما م ابھرتے ابہام دور ہو جائیں گے کیو ں کہ قوم کو جس انداز میں خط سے آگاہ کیا گیا اس کی وجہ سے عوام میں کافی تشویش پائی جا رہی ہے وہ بھی دور ہو پائے گی ۔بات ہورہی تھی ترپ چال کی ،اب تک ترپ چال اپو زیشن ہی کھیلتی نظر آئی ہے اور اس نے اپنے تما م اپنے کا رڈ نما یا ں طورپر عیا ں کر دئیے ہیں ۔اگر اس کے باوجو د تحریک انصاف اس مؤقف پر قائم ہے کہ اکثریت اس کے ہا تھ سے نہیں کھسکی ہنو ز مطلوبہ اکثریت اسی کے پا س ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کو اپنی اکثریت کا جلوہ دکھا نے کا موقع ملناچاہیے اور دیکھناچاہیے کہ وہ کونسا کرشمہ ہے جو ایک سو چھیا نو ے عدد کو اقلیت میں تبدیل کر دیں گے مگر اس کے لیے جمہوری اقدار کو ترجیح دینا لا زمی ہے ایک لاکھ یا دس لاکھ اکٹھ کی دھو نس کو کبھی جمہو ری قرار نہیںدیا جا سکتا ۔ تمام مرحلے خوشگوار طورپر آئینی ، اورقانونی طورپر پورے کئے جانا ہی ملک کے استحکا م کی بنیاد قرار پاتے ہیں ۔اس موقع پر کنٹینر کی بھا شا سکھ نہیں دیا کرتی بلکہ اقدار واخلا ق ہی روح رواں قرار پاتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  نجانے یہ سفر کہاں جا کے ختم ہو