اقرباء میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر

ڈرامے بازی اگرچہ دنیا کے اکثر ممالک کی سیاست کا خاصا ہے اور ماضی میں بیشتر ممالک میں سیاسی میدان میں مخالفین پرالزامات کے ڈرامے رچائے جاتے رہے ہیں’ کہیں کہیں اس قسم کے بیانیوں کے ذریعے ”عالمی ڈرامے بازی” بھی رچائی جاتی رہی ہے ‘ برصغیر کی تاریخ کا ایک کردار شرعی اچاریہ کوٹلیہ چانکیہ بھی سیاسی ڈرامے بازی کا ایک بہت ہی اعلیٰ استاد مانا جاتا ہے’ اس نے اپنے دور کے حکمرانوں کو مخالفین سے نمٹنے کے لئے جو ہدایات دیں وہ ان کی تحریر کردہ کتاب ارتھ شاسترمیں جمع کی جا چکی ہیں ‘ اس میں چانکیہ نے وقت کے حکمرانوں کو یہ ”نصیحت” کی ہے کہ ”جب تم کسی شخص کوہلاک کرنا چاہو تو اس کے دوست بن جائو ‘ جب تم اسے ہلاک کرنے لگو تو اس سے گرمجوشی سے بغل گیر ہو جائو اور جب اسے (خنجر مار کر) ہلاک کر چکو تو اس کی لاش پربین کرو” یہ وہ دور تھا جب آتشیں اسلحہ ایجاد توکیا اس کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں تھا اور تلوار ‘ برچھی ‘خنجر ‘ تیر وغیرہ استعمال کئے جاتے تھے ‘ اور غالباً یہ جو اردو میں پیچھے سے وار کرنا والا محاورہ استعمال ہوتا ہے یہ بھی اسی دورمیں تلواریں ‘ خنجر وغیرہ زہر میں بجھے ہوتے تھے اس لئے جسے بھی ان ہتھیاروں سے مارا جاتا اس کے جانبر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ‘ یوں یہ ڈرامہ بازیاں سیاست ‘ حکومت اور اقتدار کے حوالے سے تاریخ میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں ‘ جس کے نتیجے میں یہ پتہ ہی نہ چل سکتا کہ وار کرنے والا کون ہے ‘ اسی صورتحال کو شاعر نے کیا خوب انداز میں بیان کیا ہے کہ
وہی قاتل ‘ وہی شاہد ‘ وہی منصف ٹھہرے
اقرباء میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر؟
ملکی سیاست میں ان دنوں ایک خط کابڑا چرچا ہے جسے حکومتی سطح پر”سازش” تو مخالفین کی جانب سے ”ڈراما” قرار دیا جا رہا ہے ‘ بہت عرصہ پہلے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی راولپنڈی کے(غالباً)بنک روڈ پر عوام کے درمیان آکر ایک خط لہرا کراسے اپنے خلاف دھمکی آمیز سازش قراردیاتھا ‘ ان دنوں بھٹو حکومت کے خلاف بھی اس دور کی حزب اختلاف احتجاج کا ڈول ڈال کر ان کی حکومت کے خلاف برسر پیکار تھی ‘ ملکی سیاسی تاریخ میں محولہ خط کا بڑا چرچا رہا ‘ جسے حزب اختلاف ڈرامہ قرار دیتی تھی ‘ بہرحال وہ تاریخ کا حصہ ہے ‘ ایک اور معاملے پر بھی بھٹو پرڈرامے بازی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں1970ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پولینڈ کی قرارداد (جس سے جنگ بندی کے امکانات بہت حد تک روشن تھے) کے بھٹو کی جانب سے پھاڑ کر اجلاس سے واک آئوٹ کرکے پاکستان کی تقسیم(بنگلہ دیش کے قیام) پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا مفروضہ ہے ‘ اس پر ان دنوں بہت لے دے ہوئی ‘ حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ جو کاغذ بھٹو مرحوم نے پرزے پرزے کرکے اجلاس چھوڑا تھا وہ بھی مبینہ طور پر ڈرامہ ہی تھا ‘ اور پھاڑا جانے والا کاغذ پولینڈ کی قرارداد نہیں تھا بلکہ اجلاس کے لئے بھٹو مرحوم نے اپنے لئے جو نوٹس تیار کئے تھے وہ تھا ‘ تاہم اس موقع پر بھٹو مرحوم نے نہایت ڈرامائی انداز میں جو حرکتیں کیں ان کا نتیجہ پاکستان کے حق میں بہرحال نہیں ہوا ‘ اور پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کی سب تدبیریں ناکامی سے دو چار ہوئیں اور پاکستان کے وجود پر ”چانکیہ” والا خنجر پشت سے گھونپنے کی نوبت آگئی ‘ مگر ملکی تاریخ میں سیاسی ڈرامے بازی اب بھی کسی نہ کسی طور جاری ہے ‘ یعنی بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ان دنوں ایک اور خط کا بڑا چرچا ہے ‘ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اس کا جوتذکرہ کیا تھا یعنی ڈی چوک جلسے میں جس طرح خط لہرا کر اسے ان کی حکومت کے خلاف ”سازش” سے تعبیر کیا تھا اس پران دنوں بڑی لے دے ہو رہی ہے ‘ اور حزب اختلاف والے اسے ”ڈرامہ ” قرار دے رہے ہیں’ تو گزشتہ روز اسلام آباد میں الیکٹرانک پاسپورٹ کے اجراء کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ دھمکی آمیز خط کے نام پر ڈرامہ نہیں ہورہا ہے ‘ ادھر تحریک ا نصاف کے ایک اور رہنما جنہوں نے چند ماہ پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں ”بوٹ ڈرامہ” رچایا تھا ‘ اور جنہیں حال ہی میں دوہری شہریت کے حوالے سے غلط بیانی پر اپنی سینٹ نشست سے ہاتھ دھونا پڑے تھے’ فیصل وائوڈا نے الزام عاید کیا ہے کہ عمران خان کے قتل کی سازش ہو رہی ہے ‘ اب اس خط کے مبینہ ڈرامے کی آڑ میں فیصل وائوڈا کی نئی ”سازشی تھیوری” میں کہاں تک صداقت ہے ‘کیونکہ نہ صرف اس دھمکی آمیز خط کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے حزب اختلاف کی صفوں سے اسے بقول ان کے جھوٹ قرار دیا جارہا ہے اور اب جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق (علی موسیٰ گیلانی کے بقول) یہ جعلی خط ایک سفارتکار سے لکھوایا ‘ اس حوالے سے مختلف وی لاگرز نے جو تحقیقات کی ہیں ان میں بھی لگ بھگ ایسے ہی دعوے کئے جارہے ہیں دراصل یہ کسی ملک کی جانب سے دھمکی نہیں ہے کیونکہ ممالک اگر اس نوعیت کی دھمکیاں دیں بھی تو انہیں تحریری صورت میں سامنے نہیں لایا جاتا بلکہ زبانی کلامی ہی ہوتی ہیں ‘ جیسا کہ جنرل مشرف کو یہ کہہ کر ”لیٹ جانے” پرمجبورکیاگیاتھا کہ یا تم ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے ساتھ نہیں ہو ‘ اور نتیجہ پھر ہم نے بھگت لیا تھا ‘ جس کے اثرات سے پاکستان آج تک باہر نہیں آسکا ‘ اور وی لاگرز کے بقول یہ ایک پاکستانی سفارت کار کے اس تجزیاتی رپورٹ پرمشتمل ہے جس میں موصوف نے ایک غیر ملکی عہدیدار کے ساتھ بات چیت کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا اس کا لب لباب ہے ‘ اس صورتحال پر جماعت اسلامی کے ایک رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی گزشتہ روز تیمر گرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک ایسے ڈرامے سے تشبیہہ دی ہے جس کا مقصد عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے ‘ بہرحال اصل حقیقت کیا ہے یہ راز کبھی نہ کبھی تو سامنے آہی جائے گا کہ فی الحال تو ا سلام آباد ہائی کورٹ نے قومی راز ا فشاء کرنے پر پابندی لگادی ہے ۔ کہ بقول انور فریدی
سینہ بہ سینہ کرتی ہے صدیوں کا وہ سفر
چلتی ہے جو خبر کسی اخبار کے بغیر

مزید پڑھیں:  ایک نیا تجربہ