ہنگامہ ہے کیوں برپا ایک خط ہی تو ہے

مکرر عرض کئے دیتا ہوں کہ جسے دھمکی آمیز خط قرار دے کر امیرملت اسلامیہ کی جان کو خطرات لاحق ہیں کہ بات کی جارہی ہے اس کی آدھی حقیقت تو اتوار کی شام سے بدھ کی دوپہر تک کے سفر میں خود ہی کھل گئی روز اول سے ہی دستیاب معلومات کی بنیاد پر عرض کر رہا تھا کہ یہ خط ایک قسم کی ”سفارتی کھیل” ہے ۔ جو سفیر عموماً اپنی پھرتیوں بے پناہ کام اور خدمت وطن کے نام پر بھیج کر بتاتے ہیں ہم بہت کام کر رہے ہیں حالیہ سفارتی کھیل یا دھمکی سے آمیز خط کا قصہ بھی فقظ اتنا ہے کہ ایک سابق سفیر جو بیرون ملک موجود ہیں ان کی ایک کیفے میں ایک اور سرکاری حکام سے ”کپ آف ٹی” پرملاقات ہوئی۔ سفارتی امور کے حاضر و سابق بندگان جب ملتے ہیں تو اس وقت کے عالمی منظر نامے پر بھی بات ہوتی ہے اس ملاقات میں بھی یہی ہوا کہ موجود عالمی صورتحال پر تبادلہ خیال کے دوران دو الگ ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین خارجہ امور نے بالی ووڈ یا ہالی ووڈ کی فلموں پر تو ظاہر ہے گفتگو نہیں کرنی تھی۔ اس سے آگے کی کہانی کس نے گھڑی عمران خان (وزیر اعظم) کو کس نے کہا کہ یہ آپ کے لئے دھمکی ہے اور دھمکی کی وجہ روس کا دورہ ہے ۔ ساعت بھر کے لئے رکئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ خط سبکدوشی کے مرحلہ پر پہنچے (کیونکہ مدت تعیناتی پوری ہو چکی نیا سفیر تعینات ہو چکا ہے ) سفیر محترم نے یہ کھیل بھیجی تو روٹین کے مطابق مگر مرچ مصالحہ فرمائشی تھا۔ فرمائش کرنے والوں میں دو شخصیات کا نام آرہا ہے ایک ہمارے ملتانی پیر و مرشد کا اور دوسرا اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا ۔ سوچا یہ گیا کہ روٹین کی سفارتی کھیل کو ڈرامائی انداز میں جذباتی مداحوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ انہیں لگے کہ سارا عالم کفر ہمارے کپتان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے ۔ ایسے مکالماتی تجزئیوں سے اندازہ لگایا جا تا ہے کہ کون ہمارے بارے میں کیا سوچ رہا ہے ۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر حکومت عملی وضع کی جاتی ہے یہی سفارتکاروں کا کام ہے اور انہوں نے کونسا کوزی چلم یا چکڑ چھولے فروخت کرنا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ ان دنوں حکومت اور اپوزیشن میں ٹھنی ہوئی ہے ۔ سوچا گیا کیوں نہ اس سفارتی تجزیہ سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ راوی( ذرائع) اس بارے میں تین افراد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ایک ہمارے ملتانی پیر و مرشد ‘ دوسرے جہلم والے عزیزی اور تیسرے سابق مشرقی پاکستان کے سقوط کے ایک کردار کے فرزند ارجمند ۔ ان تینوں کا خیال تھا کہ اگر عوامی اجتماع میں دھمکی آمیز خط لہرا کر وزیر اعظم کہہ دیں کہ مجھے غیر ممالک سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور میرے خلاف سیاسی میدان اور تحریک عدم اعتماد دونوں بیرونی فنڈنگ کا نتیجہ ہیں تو اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا وزیرخارجہ کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ وزیر اعظم کو مشورہ دیتے کہ کسی تاخیر کے بغیر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی بجائے جلسہ عام کے انعقاد اور جلسہ میں عوام(اپنے حامیوں) کے سامنے جذباتی تقریر سے فتح کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ مظلوم امت مسلمہ کا درجہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ دھمکی آمیز خط قومی سلامتی کمیٹی میں لیجانے کا نتیجہ جو نکلنا تھا وہ شاہ جی ‘ چوہدری صاحب اور جرنیل زادہ تینوں جانتے تھے ۔ کیا آپ کو عجیب نہیں لگتا کہ اس قدر حساس معاملہ سے قومی سلامتی کمیٹی بے خبر تھی۔ دھمکی آمیز خط لہرانے ‘ ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرنے اور یہ تاثر دینے کہ ان کی طرح مجھے دھمکی دی گئی ہے کیونکہ میں مرد آزاد ہوں کا مقصد کیا تھا صاف ظاہر ہے عوام کی ہمدردی حاصل کرنا۔ لیکن مشورہ دینے اور تقریر سمجھانے والے یہ بھول گئے کہ بھٹو نے کچھ کام بھی تو کئے تھے۔ خان صاحب نے پونے چار برسوں میں کیا کام کئے؟ میں مکرر آپ کی خدمت میں عرض کئے دیتا ہوں خان صاحب جولائی 2019ء میں جس امریکی دورہ پر گئے تھے وہ ورکنگ ویزٹ تھا ۔ ایسا ہی ورکنگ ویزٹ جو حالیہ عرصہ میں روس کا ہوا یعنی امریکہ اور روس کے دورے سٹیٹ ویزٹ (سرکاری دورے) نہیں تھے ۔ سفارتکاروں سے ملاقاتیں طے کرائی گئیں امریکہ کا دورہ پی ٹی آئی کے اجتماع سے خطاب تھا۔ روس کا دورہ کچھ دیگر معاملات تھے وہ تو روس یوکرائن جنگ چھڑ گئی ۔ ایک ذریعہ نے اس امر کا بھی انکشاف کردیا ہے کہ روس یوکرائن جنگ اور جنگ کے امکانات سے باخبر کر چکے تھے یعنی سفارتی کیبلز دنیا کے دفتر خارجہ میں پہنچ چکیں تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے شہرت یافتہ وزیر خارجہ ایسی اطلاعات سے لاعلم تھے ؟اب اگر روس کے ورکنگ دورہ اور حالیہ مبینہ دھمکی آمیز خط دونوں کو ملا کر تجزیہ کریں تو آپ آسانی سے سمجھ لیں گے کہ وزیر اعظم کو گھیر کر اس مقام تک لے جایا اور لایاگیا۔ دفتر خارجہ کا فرض تھا کہ وہ روس کے وورکنگ دورہ کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیتا جوکہ نہیں دیا گیا بلکہ وہی روایتی کہانی بیچی گئی ۔ مہینوں کی محنت سے شیڈول طے پایا تھا دورہ ملتوی کیا گیا تو دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں گے خیر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ تاثر کیوں دیا گیا کہ افغانستان سے امریکی ا نخلاء کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہوئی کشیدگی کا علاج اس دورے میں موجود ہے ادھر ہم روس گئے اور ادھر امریکی بھاگم بھاگ اسلام آباد تشریف لائیں گے ؟ سفارتکاروں کی نزاکتوں سے باخبر ایک عام طالب علم بھی یہ تجزیہ کرسکتا ہے کہ عالمی دھڑے بندی سے دامن بچا کر وہی رہ سکتے ہیں جن کے قدم اپنی سرزمین پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہوں۔ ہمارے حالات سے زمانہ واقف ہے سوائے ہمارے ‘ ایک بار پھر یہ عرض کر دوں کہ خط واقعی دھمکی آمیز ہوتا جیسا کہ اتوار کی شام سے بدھ کی دوپہر تک طوفان اٹھایا گیا تھا تو پھر قومی سلامتی کمیٹی میں اس پر بات کرکے عوام کو اعتماد میں لینے کا ذریعہ پارلیمنٹ اور جلسہ ضرور تھے ۔ یہاں تجزیہ کچھ تھا اسے دھمکی آمیز خط کا نام دیا گیا اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے ۔ حرف آخر یہ ہے کہ اگر ہم واقعی امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے پرعزم ہیں تو پھر جب روس و چین معاشی بلاک بنانے کے لئے ترکی اور ایران کے ساتھ 2020 میں ہم سے بھی بات چیت کر رہے تھے تو ہم منہ موڑ کرامریکی کافی کی چسکیاں کیوں لیتے رہے۔

مزید پڑھیں:  خود کو بدلیں