مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی اہم سفارتی کامیابی

اسلام آباد میں حال ہی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کی وزرائے خارجہ کانفرنس کا انعقاد پاکستان کیلئے پیچیدہ اندرونی سیاسی حالات کے پس منظر میں ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، پاکستان کو صرف تین ماہ کے عرصے میں دوسری بار اوآئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے،کانفرنس میں32 ممالک کے وزرائے خارجہ اور 700 سے زائد مندوبین نے شرکت کی، چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے نہ صرف کانفرنس میں شرکت کی بلکہ مسئلہ کشمیر پر ایک بھرپور بیان بھی دیا جس سے بھارت ایک بار پھر مشتعل ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے اور دیگر سرگرمیوں جیسا کہ او آئی سی کے رابطہ گروپ کے اجلاس میں(جس میں پانچ ممالک آذربائیجان، نائیجر ، پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی) مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال نمایاں طور پر زیر بحث آئی ، اس کے علاوہ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل، او آئی سی کے مستقل انسانی حقوق کمیشن (آئی پی ایچ آر سی)کے نمائندے، آزاد کشمیر کے صدر اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے دو نمائندوں نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام شرکاء نے متفقہ طور پر اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق پانچ پیراگراف میں شامل مواد، موقف اور محاورات کی توثیق کی۔ درحقیقت بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370کی منسوخی اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے مرکز کے تحت علاقے میں تبدیل کئے جانے کے معاملے پر او آئی سی کے رکن ممالک بالخصوص خلیجی ریاستوں نے بڑی حد تک غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا تھا، گزشتہ سال وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس کے انعقاد میں تاخیر پر مسلم ممالک کے ایک گروپ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا ۔
او آئی سی کی حالیہ دو روزہ کانفرنس سے بھی کسی معجزے کی توقع نہیں کی جا رہی تھی تاہم او آئی سی وزرائے خارجہ نے تنازعہ کشمیر پر ایک ایسا جامع بیان جاری کیا جو کشمیری عوام کی امنگوں کی عکاسی کرتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ او آئی سی نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پانچ اگست 2019ء کو یا اس کے بعد اٹھائے گئے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے، ایک بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ او آئی سی کے خصوصی نمائندے کو بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے اور اوآئی سی کے حقائق جاننے کے مشن کو وہاں انسانی حقوق کی صورتحال کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینے دے۔
مشترکہ اعلامیے کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے جدہ میں او آئی سی سیکرٹریٹ کے ساتھ مل کر کافی سفارتی کوششوں کے بعد ایک جامع اعلامیہ جاری کرنے میں کامیابی حاصل کی،اس اعلامیے میں استعمال ہونے والے لہجے اور زبان کو مستقبل کی اوآئی سی کانفرنسوں میں بھی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے،خاص طور پر اگر اس سال کے آخر میں گیمبیا میں ہونے والے او آئی سی کے سربراہ اجلاس کشمیر کے معاملے پر اسی طرح کا غیر واضح موقف اختیار کیا جائے تو یقیناً بھارت پر نمایاں سفارتی دباؤ آئے گا۔اس کے ارکان نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ ہونے والے مظالم کے متاثرین اور سری نگر اور دیگر علاقوں سے بے گھر ہونے والے کشمیریوں سے بات چیت کے لیے گزشتہ سال دسمبر میں مظفر آباد کا دورہ کیا تھا، اس کے علاوہ، او آئی سی کا ایک کشمیر رابطہ گروپ ہے، جو 1993 میں اپنے قیام کے بعد سے کشمیر کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل بھی کشمیر کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرے۔
بھارتی حکومت نے مذکورہ پیش رفت پر تین اعتراضات اٹھائے ہیں،بھارتی وزارت خارجہ نے آزاد کشمیر کے صدر اور حریت کانفرنس کے رہنماؤں کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے پر برہمی کا اظہار کیا،حالیہ برسوں میں چند خلیجی ملکوں نے او آئی سی میں بھارت کی نمائندگی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی،2019 ء میں اس وقت کی بھارتی وزیرخارجہ آنجہانی سشما سوراج کو متحدہ عرب امارات میں منعقدہ وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا،چنانہ چینی وزیر خارجہ کو او آئی سی کانفرنس میں مدعو کر کے پاکستان نے ممکنہ طورپر مسلمانوں کے اداروں میںبھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا جواب دیا ہے۔پاکستان نے پہلے ہی چین اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب او آئی سی جیسے اہم فورم میں چین کی موجودگی یقینا پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، اگرچہ او آئی سی ابھی تک ایک موثر بین الاقوامی تنظیم نہیں بن سکی لیکن یہ اب بھی ایک مفید پلیٹ فارم ضرور ہے کیونکہ یہ مسلم اکثریتی ممالک کا واحد مشترکہ فورم ہے جہاں وہ اپنے اجتماعی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں،گزشتہ چند سالوں میں تنظیم نے اپنا دائرہ کار نمایاں طور پر بڑھایا ہے اور اب وہ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق سمیت کئی علاقائی اور عالمی مسائل پر کام کر رہی ہے،پاکستان کو اس تنظیم کی بہتری کیلئے دوسرے مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ ملکرکوششیں کرنی چاہئیں تاکہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک زیادہ فعال اور بااثر عالمی فورم بن سکے۔(بشکریہ ، دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے