ایم کیو ایم کی سیاست اور معاہدے

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اپوزیشن کے ساتھ ہوئے معاہدے کی توثیق کے بعدایم کیو ایم نے امید ظاہر کی ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے عوام کی خواہشات پر پورا اتریں گے۔ایم کیو ایم وقتا فوقتا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ شامل ہو کر اقتدار میں موجود رہی ہے۔علاوہ ازیں۔ایم کیو ایم ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے تحریری معاہدے کرچکی ہے حکومت سے علیحدگی کے وقت ہر بار وعدے شکنی کے شکوے کیے گئے ہیں تازہ معاہدے کے ملکی سیاست کے اثرات سے قطع نظر دیکھا جائے تو یہ ایم کیو ایم کی مجبوری بھی تھی کیونکہ ووٹر کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت کا تعاون درکار ہے اب اگر معاہدے کے مطابق سیوریج، پانی، سڑکوں کا معاملہ اختیارات کی منتقلی، کوٹہ سسٹم پر عمل ہوتا ہے تو ایم کیو ایم کی ساکھ برقرار رہے گی ورنہ دوبارہ سیاسی تنازع جنم لے گا کیونکہ ترقی کے بغیر کوئی بھی نعرہ ایم کیو ایم کو عوام کے ساتھ جوڑ نہیں سکتا۔سندھ کی ترقی کسی حد تک اس وقت ممکن ہے جب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں اتفاق رائے ہو، بدقسمتی سے پچھلے چند سالوں سے ایسا کچھ نہیں ہوا جس کے نتیجے میں سندھ میں نئے تضادات پیدا ہوئے اس مرتبہ ان کی جو انڈرسٹینڈنگ ہے یہ ان کے لیے آخری موقع ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اگر گزشتہ آٹھ سال میں اتفاق رائے پیدا کر لیتے تو آج انہیں اس عدم اعتماد کی تحریک میں کوئی مشکل نہیں ہوتی وہ آسانی سے ایم کیو ایم کی حمایت لے لیتے اور ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کی اتحادی نہیں بنتی ہے طویل مذاکرات کے بعد ایک مرتبہ پھر ایک نیا معاہدہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں کے لیے سبق ہے۔
الیکشن کمیشن کے قوانین کی دھجیاں
ضلعی مانیٹرنگ افسران کی وارننگ کے باوجود خیبر پختونخوا میں بار بار ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی حکومتی شخصیات نے اور سیاسی قائدین کی جانب سے قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں حکومتی عہدیداروں نے بالترتیب 16’11’ 20اور25مارچ کو لوئر دیر’ سوات’ مالاکنڈ اور مانسہرہ میں جلسوں سے خطاب کیا اور چار میں سے تین خلاف ورزیوں پر50ہزار روپے جرمانہ کیا گیا’ مانسہرہ میں ہونے والے جلسے پر فیصلہ زیر التوا ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سمری کے مطابق خلاف ورزی کرنے والوں پر اب تک 18لاکھ76ہزار روپے کے جرمانے عائد کئے جا چکے ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق پبلک آفس ہولڈرز کی جانب سے خلاف ورزی کے کل36واقعات ریکارڈ کئے گئے کمیشن کی جانب سے پابندی کے باوجود پوسٹنگ اور ٹرانسفر کی صورت میں16خلاف ورزیاں ہوئیں۔ان سطور کی ا شاعت تک بلدیاتی ا نتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج بھی سامنے آچکے ہوں گے جس سے قطع نظر ا نتخابات کا انعقاد بہرحال ہو چکا اور عوام نے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہار اور جیت انتخابات کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ا نتخابات کے لئے ضابطہ اخلاق کی اس طرح کی خلاف ورزیاں اور حکمرانوں کا اس میںملوث ہونا کوئی اچھی مثال نہیں بلکہ اس غلطی پر اب ان کو عوام سے معافی مانگنی چاہئے بدقسمتی سے عوام اس طرح کے عوامل کا منفی اثر لینے اور رد عمل کا اظہار کرنے کی بجائے الٹا اس طرح کے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں جو کسی طور بھی مناسب طرز عمل نہیں جب تک عوام کی جانب سے خلاف قانون اقدامات کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے کی روایت قائم نہیں ہوگی اور حکمران قانون کا احترام اور اس کی پابندی کا فیصلہ نہیں کریں گے اس طرح کے ناپسندیدہ عوامل کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا انتخابی قوانین اور قواعد وضوابط پر عملدرآمد کی ذمہ داری پوری کرنے کا اخلاقی عمل اپنی جگہ ضروری ہے لیکن چونکہ اس کی پرواہ نہیں کی جارہی ہے اس لئے ان قوانین اور قواعد و ضوابط کو اتنا سخت بنا دینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کوئی بھی ان کا مذاق نہ اڑا سکے ۔
افغانستان میں طالبات کی تعلیم پر بلاوجہ کی پابندی
متحدہ شریعت محاذ کے زیر اہتمام لڑکیوں کی تعلیم اور علمائے کرام کا کردار کے موضوع پر کانفرنس میں علماء کی جانب سے طالبان سے لڑکیوں کے سکول بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق میں بہتری اور موجودہ روئیوں میں تبدیلی لانے کے لئے علماء کا کردار ناگزیر ہے۔جید علماء کی جانب سے فرسودہ روایات اور رسومات کو اسلامی رنگ میں پیش کرنے کی مذمت بھی کی گئی علماء کی جانب سے اس اہم مسئلے پر کھل کر اظہار خیال کے بعد اب اس حوالے سے کسی ابہام کی گنجائش نہیں کہ افغانستان میں طالبات کی تعلیم پر پابندی دین پر عمل سے زیادہ روایات اور ثقافت کی پابندی ہے ۔ طالبان حکومت کے اس طرح کے فیصلوں اور اقدامات سے جہاں افغان بچیاں تعلیم کے زیور سے محروم ہو رہی ہیں وہاں عالمی سطح پر یہ طالبان حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بھی ہے جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  ایک نیا تجربہ