دہشت گردی کا ایک اور سنگین واقعہ

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک میں ایف سی قلعہ پر حملے میں چھ سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت اور اٹھارہ کے زخمی ہونے کا واقعہ دہشت گردی کی ایک اور بڑی واردات ہے جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبول کی گئی ہے ۔ ٹانک پولیس حکام کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی رات کے تین بجے کم از کم تین حملہ آور ٹانک میں واقع ایف سی قلعے میں عقبی جانب سے داخل ہوئے۔واضح رہے کہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی اس حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق دہشت گردوں نے ٹانک کے ملٹری کمپاوئنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ناکام بناتے ہوئے چھ فوجی شہید ہوئے۔ٹانک کے ضلعی پولیس افسر کے مطابق دہشت گردوں نے ایف سی قلعے میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیوں کا استعمال کیا۔بتایا جاتا ہے کہ ٹانک کا ایف سی قلعہ جس کو ایف سی لائن بھی کہا جاتا ہے، پولیس لائن کی طرز کا ایک کمپائونڈ ہے جس میں فوج، فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار موجود رہتے ہیں۔ یہ قلعہ ٹانک شہر کے اہم مرکزی علاقے میں واقع ہے جہاں سرکاری دفاتر اور کچہری کے علاوہ جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران کے دفاتر بھی واقع ہیں۔اس طرح یہ کسی ویران جگہ پر واقع نہیں بلکہ اہم اور مرکزی مقام پر ہے جہاں دہشت گردوں کا پہنچنا اور سیڑھی لگا کر حملہ از خودسنگین سوالات کا باعث اور حیران کن امر ہے بہرحال یہ ایک حساس علاقہ ہے جو جنوبی وزیرستان کیساتھ واقع ہے جہاں سے ایک راستہ صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب کو بھی جاتا ہے۔ ٹانک کی سرحد ایک طرف ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی ملتی ہے۔جنوبی وزیرستان سمیت قریبی علاقوں میں ان دنوں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔جنوبی وزیرستان سے چند روز میں سکیورٹی فورسز پر دو بڑے حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں جن میں سکیورٹی فورسز کا جانی نقصان ہوا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق منگل کی شب جنوبی وزیرستان میں مکین کے علاقے میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو فوجی اہلکارشہید ہوئے تھے جن میںایک کیپٹن اور لانس نائیک شامل ہیں۔قبل ازیں پنجگور نوشکی بلوچستان میں ایف سی لائن پر اسی طرح کا حملہ ہوا تھاجس کا اعادہ اب خیبر پختونخوا میں کیا گیاایسا لگتا ہے کہ دونوں واقعات کی منصوبہ کرنے والا کوئی ایک ہی گروہ ہے بلوچستان کے واقعے کی ذمہ داری بلوچ شدت پسندوںنے قبول کی تھی جبکہ خیبر پختونخوا کے واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے قبول کی گئی ہے چونکہ دونوں واقعات میں کافی مماثلت ہے ایسے میں سرحد پار موجود ہر دو قسم کے دہشت گرد گروہوں کے درمیان روابط و مشاورت اور مشترکہ منصوبہ بندی کا گمان گزرتا ہے ۔خیبر پختونخوا و بلوچستان دونوں سرحدی صوبے جن کی سرحد افغانستان کے ساتھ لگتی ہے وہاں پرحالات کی خرابی کے ڈانڈے براہ ر است اور بلواسطہ طور پر افغانستان سے جا ملتے ہیںجہاں طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے باربار پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی جا چکی ہے کہ ان کی سرزمین کسی طور پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن حالات و معاملات اس کے برعکس ہیں۔مختلف واقعات میں استعمال ہونے والے جدید نوعیت کے ہتھیاروں کے استعمال اور دہشت گردوں کے حملوں کی استعداد میں اضافہ کا معاملہ بھی شکوک و شبہات کا باعث اس لئے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے وقت جو ہتھیار ہاتھ آئے تھے اس تک دہشت گردوں کی رسائی کیسے ہوئی جس کا وہ اب استعمال کررہے ہیں رات کے وقت حملے کی صلاحیت بھی قابل توجہ ہے۔ بہرحال اس سے قطع نظردیکھا جائے تو افغانستان میں پراسرار طور پر ہلاکت خیز حملے کا نشانہ بننے والے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں اس طرح کے حملے ہوئے ہیں ممکن ہے یہ اتفاق ہو لیکن بہرحال ایسا ہوا ہے ان سارے معاملات سے اگرچہ افغانستان کی عبوری حکومت کا براہ راست کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش ہے لیکن بہرحال اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغان عبوری حکومت پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال ہونے نہ دینے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اس پر ان کو ٹھنڈے دل سے غور کرکے اقدامات پر توجہ دینی چاہئے اس طرح کی صورتحال میں ہمسایہ ممالک کے درمیان غلط فہمی پیدا ہونا فطری امر ہو گا جس سے بچنے کا واحد ذریعہ افغان عبوری حکومت کو حق ہمسائیگی پر توجہ اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قیمت پراستعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کو یقینی بنانا ہے ۔افغان عبوری حکومت اگر اپنے علاقے میں ٹی ٹی پی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اس کا کھل کر اظہار کیا جائے اور مداخلت کاروں کی سرکوبی کے لئے پاکستان کی مدد حاصل کی جائے ۔مشکلات میں گھری عبوری حکومت کے پالیسی سازوں کو جملہ امور پر غور کرنا چاہئے اور عدم تعاون کی صورت میں پاکستان کی جانب سے بھی ایسے امور پر غورکرنے کی ضرورت ہو گی جو افغان حکومت کو ان کی ذمہ داریوں کا سنجیدگی سے احساس دلانے میں مدد گار ہو۔

مزید پڑھیں:  این چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کند