کشمیر پر چار نکاتی فارمولہ متروک نہیں ہوا

کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی برف پوری طرح منجمد ہے ۔بظاہر بات چیت کے تمام چینل بند ہیں مگر بھارت کے معروف صحافی پروین سوامی نے ایک مضمون لکھا ہے کہ آنے والے دنوں میں مشرف فارمولے کی بند فائل دوبارہ کھولی جا سکتی ہے ۔پروین سوامی نے دی پرنٹ میگزین میں لکھے گئے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ پلوامہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل کے ذریعے رابطہ تھا اسی کے نتیجے میں دوبارہ پلوامہ جیسا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ان کے مطابق مشرف فارمولے کی بند فائل دوبارہ کھل سکتی ہے ۔ایک اور ذریعے کے مطابق بھارت کی طرف سے مناسب موقع پر مقبوضہ جموں وکشمیر کا ریاستی سٹیٹس بحال کرنے کی بات کرنے کا مطلب یہی ہے کہ بھارت کشمیر پر کسی سمجھوتے کاامکان برقرار رکھنا چاہتا ہے اور وہ سمجھوتہ یہی ہو سکتا ہے کہ چار نکاتی فارمولے کی بند فائل دوبارہ کھولی جائے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کشمیر کے حالیہ دورے کے دوران یہ بات کہہ چکے ہیں کہ مناسب وقت پر جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا۔امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس نے ایک رپورٹ جاری کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت و افادیت کا قصہ دوبارہ چھیڑا ہے ۔یہ تھنک ٹینک امریکی کانگریس کی فنڈنگ سے چلتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی سرگرمیوں میں حکومت اور مقننہ یعنی کانگریس کی سوچ اور دلچسپی کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے ۔ماضی میں یہ امریکی تھنک ٹینک کشمیر پر پس پردہ ڈپلومیسی کی ایک عشرے سے زیادہ عرصے پر محیط مشق کی سہولت کاری کرتا رہا ہے ۔جن میں مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل تلاش کرنے پر سوچ وبچار کی جاتی رہی ۔یہ سارا کام مختلف تجاویز اور فارمولوں کی صور ت اب فائلوں کا حصہ ہے ۔رپورٹ میں موجود ہ بدترین اور کشیدہ حالات میں بھی جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کو مستقبل کے پاک بھارت مذاکرات کی بنیاد قرار دیا گیا تھا۔یہ رپورٹ جواہر لعل نہرو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیپی مون جیکب نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے کئی سیمیناروںمیں شرکت اور دونوں ملکوں کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس حکام کے ساتھ انٹرویوز کے بعد مرتب کی ہے۔”کشمیر آخری معرکے کی جانب:بھارت اور پاکستان کس طرح دیرپا حل کے لئے گفت وشنید کر سکتے ہیں؟”کے عنوان سے مرتب کی گئی اس رپورٹ میں پانچ اگست کے بعد کشمیر کے حالات کو ”اضطراب کی ہنڈیا”اور پاک بھارت فلش پوائنٹ بتایا گیا ہے۔یہ اصطلاحات حالات کی سنگینی کو ظاہر کر تی ہیں۔رپورٹ میں تسلیم کیا گیا تھا کہ بھارت نے پانچ اگست کو مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت ختم کرکے کشمیر کو فلش پوائنٹ بنادیا ہے۔عملی طور پر اس فیصلے کے بعد بھارت نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مفاہمانہ حل کے تمام آپشن ختم کر دئیے ہیں۔اب دہلی کی حکمت عملی یہ ہے کہ کشمیر پر اپنی گرفت زیادہ سے زیاہ مضبوط کی جائے اور یوں بھارت نواز جماعتوں کے لئے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے۔بھارت کا یہ طرزعمل کشمیر میں بیگانگی میں اضافہ کرنے اور پاکستان کی مداخلت بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔پاکستان نے ڈپلومیٹک سطح پر سرگرمیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا دی ہے ۔یہ ملٹرائزڈ سٹرکچر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔گوگہ مستقبل قریب میں دوطرفہ سمجھوتے کے آثار نہیں مگر پاکستان اور بھارت کو اس کشمیر فارمولے کی طرف دوبارہ رجوع کرنا چاہئے جو 2004سے 2007کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی سے ترتیب پایا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی کانگریس نے پانچ اگست کے اقدامات پرتحفظات کا اظہار کیا ہے۔دہلی کو اس فیصلے پر عمل درآمد میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔کشمیر میں تشدد میں اضافہ کے آثار نمایاں ہیں۔کشمیر کو داخلی مسئلہ کہنا بھارت کا ایسا تصوراتی دعویٰ اور خلاف حقیقت بات ہے جس کی بنیادصرف فوجی جمائو ہے۔حالات کے اس تجزیے کے بعد رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں گوکہ چار نکاتی فارمولہ پہنچ سے بہت دور ہے مگریہ مستقبل میں دونوں حریف ملکوں کے درمیان بات چیت کی بنیاد بن سکتا ہے۔رپورٹ میں چار نکات کو موجودہ حالات میں اپنانے کے فوائد بیان کئے گئے ہیں اور ان نکات کی رکاوٹوں پر بھی بات کی گئی ہے ۔ اس فارمولہ میں سیلف گورننس یعنی سری نگر اور مظفر آباد کی دونیم خود مختار حکومتیں ،ڈی ملٹرائزیشن یعنی دونوں خطوں کی آبادیوں سے فوج کا جزوی انخلا سافٹ بارڈرز یعنی کنٹرول لائن کی آمدورفت اور تجارت کے لئے نرمی اور مشترکہ اداروں کا قیام یعنی پاکستان اور بھارت کی مشترکہ نگرانی میں سر ی نگر اور مظفر آباد کے مشترکہ منصوبوں کا آغاز شامل تھا۔یہ وہی چار نکاتی فارمولہ ہے جس کی تشہیر جنرل پرویز مشرف نے زور وشور سے شروع کی تھی اور پھر اسے مشرف فارمولہ ہی کہا جانے لگا تھا۔اس فارمولے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے نام پر ایک پیس پروسیس کا آغاز بھی ہوا ،سری نگر مظفرآباد بس سروس اور تجارت بھی شروع ہوئی مگر دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تنائو کم کرنے اور زمین پر نظر آنے والے اقدامات نہ اُٹھائے جا سکے ۔

مزید پڑھیں:  ڈالر پاکستان افغانستان میںامریکی سامرجیت کا مستقل سبب