عمران خان کیوں مات کھا گئے؟

کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت کا اندازہ عوام کے ساتھ تعلق سے لگایا جا سکتا ہے، تحریک انصاف کو جب حکومت ملی تو بطور پارٹی عوام کے ساتھ رابطے میں کمزوری آ گئی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خود وزیر اعظم جبکہ ان کے قریب ترین دیرینہ پارٹی اراکین حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنے، پارٹی کے معاملات کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا یوں پارٹی کمزور ہوتی گئی۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کم سیٹوں کے حصول کے بعد معلوم ہوا کہ پارٹی کمزور ہو چکی ہے انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا مگر تب تک شاید ایسا نقصان ہو چکا تھا جس کا ازالہ آسان نہ تھا۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت اور پارٹی کے معاملات دو الگ الگ چیزیں ہیں، جب کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت میں آ جاتی ہے تو آئینی طور پر پابند ہوتی ہے کہ حکومت اور پارٹی امور کو علیحدہ علیحدہ رکھے۔ تحریک انصاف نے مگر اس طرف توجہ نہیں دی حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان نے پارٹی کا چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کو بنایا جو پارٹی کو سنبھالنے میں کامیاب نہ ہو سکے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف کا ورکر عمران خان کے علاوہ دوسرے کسی رہنما پر اعتماد کیلئے تیار نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو آج ایوان کے اندر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی کمزور پارٹی سسٹم ہے۔ تحریک انصاف کی جب حکومت قائم ہوئی تو پہلے تین ماہ میں پارٹی سطح پر اداروں کے سربراہان کی ایسی لسٹیں تیار ہو جانی چاہئے تھی جہاں پر سابقہ حکومتوں کے حمایتی براجمان تھے ان کی جگہ پارٹی وفادار کو تعینات کیا جاتا، ماضی کے ادوار میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، تحریک انصاف نے اس طرف جب توجہ دی تو دو سال بیت چکے تھے۔ تحریک انصاف کو اس کا نقصان یہ ہوا کہ سابقہ حکومتوں کے وفادار افسران نے حکومت کے ساتھ تعاون نہ کیا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف کے جو وفادار امید لگائے بیٹھے تھے کہ انہیں کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کیا جائے گا وہ دل برداشتہ ہو گئے۔ خفگی اس قدر بڑھی کہ انہوں نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ رابطہ شروع کر دیا، پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اپنے اراکین کی ایکٹویٹی پر نظر رکھتے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور آج تحریک انصاف کے ساتھ اس کے اپنے اراکین کھڑے ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے خلاف کسی نے کوئی سازش نہیں کی ہے بلکہ جس پارٹی کا ڈھانچہ اندورنی طور اس قدر کمزور ہو جائے اسے ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے دوبارہ مقبول ہونے کا فارمولہ بھی یہی ہے کہ وہ عوام کے پاس جائے عوام کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرے اور انہیں یقین دلائے کہ وہ واحد جماعت ہے جو عوام کی امیدوں پر پورا اتر سکتی ہے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ایسا تاثر دیا جس سے محسوس ہو رہا ہے کہ اقتدار کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر وہ پریشان ہیں،حالانکہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کو ترک کر کے آگے بڑھنے کا نام سیاست ہے۔
تحریک انصاف نے منحرف اراکین کیلئے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے انہیں ضمیر فروش اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا ہے حالانکہ اپنی اداؤں پر بھی غور کرنا چاہئے کہ یہ اراکین آج تحریک انصاف کو کیوں چھوڑ رہے ہیں اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ کوئی بھی لیڈر شوق کیلئے سیاست نہیں کرتا ہے، انتخابات میں کامیابی کے بعد سیاسی قائدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے جو کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اس مقصد کیلئے انہیں حکومت سے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف تین سال سے زائد کا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود اراکین کو فنڈز کی تقسیم کا طریقہ کار وضع نہ کر سکی۔ جو ترقیاتی کام دکھائی دے رہے ہیں وہ وفاقی سطح پر اور وزیر اعظم عمران خان کی نگرانی میں کرائے گئے ہیں اسی طرح پنجاب میں جو ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے وہ بھی وزیر اعظم کی زیر نگرانی ہوئے، کہنے کی حد تک تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تھے مگر عملی طور پر وزیر اعظم خود معاملات کو دیکھ رہے تھے اس مقصد کیلئے وہ ہر ہفتہ لاہور جاتے تاکہ منصوبوں پر ہونے والے پیش رفت کا جائزہ لیں سکیں۔ البتہ خیبر پختونخوا کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہاں پر جو کام ہوئے وہ صوبائی سطح پر تشکیل دیئے گئے منصوبے تھے یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبوں کی نسبت اب بھی خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف مقبول ہے، خیبر پختونخوا کی طرز پر پورے ملک میں کام کرنے کی ضرورت تھی مگر بوجوہ ایسا نہیں کیا گیا۔
ان عوامل کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف بیرونی سازش بعد میں ہوئی ہے سب سے پہلے پارٹی کے اندر بحران پیدا ہوا جس کا اپوزیشن جماعتوں نے فائدہ اٹھایا۔ ہمارے مؤقف کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ اکتوبر 2019ء میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کیا، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہزاروں کارکنان کے ساتھ اسلام آباد میں کئی دن تک موجود رہے اس دوران وہ وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرتے رہے مگر تحریک انصاف کو کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ اراکین اس کے ساتھ تھے اور پارٹی اندرونی طور پر مضبوط تھی، مولانا فضل الرحمان کو طویل دھرنے کے بعد استعفیٰ لئے بغیر خالی ہاتھ واپس جانا پڑا، مگر اب جبکہ پارٹی اندرونی سطح پر کمزور ہو چکی تھی تو وہی مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی حمایت سے حکومت پر حاوی ہو گئے۔
اب جبکہ نوشتہ دیوار سامنے ہے تو عمران خان کو چاہئے کہ وہ کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنا احتساب کریں، ان غلطیوں کا جائزہ لیں جو اقتدار سے رخصتی کا باعث بنی ہیں۔ وہ اپنے چاہنے والوں کو یہ تاثر دیں کہ اقتدار جانے کا انہیں کوئی غم نہیں ہے، اگر وہ ہر بات پر اقتدار کے ایام کو یاد کریں گے تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اقتدار جانے پر وہ شدید دکھی ہیں۔ آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے نہ کہ ماضی کو اپنے اوپر سوار کر لیا جائے۔

مزید پڑھیں:  عوام کی مشکلات کا بھی کسی کو خیال ہے؟