”اپوزیشن نے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی ماری ہے”

اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں 27 مارچ کو ہونے والے جلسے نے کئی لوگوں کو ششدر کردیا تھا کیونکہ اس سے قبل یہی ایک عام تاثر تھا کہ عمران خان کی حکومت میں مہنگائی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اب تحریکِ انصاف کے اپنے کارکن بھی اس کا دفاع کرنے میں ناکام ہو رہے تھے۔ تحریک انصاف کے مخالفین کا یہ دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی 10ہزار سے زائد لوگ اکٹھے نا کرسکی جبکہ موبائل فون سگنلز کے ڈیٹا کے مطابق پریڈ گرائونڈ اور اس کے اطراف سڑکوں پر6سے8لکھ سمز کے سگنلز ریکارڈ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ عمران خان کے پاس اب بھی سڑکوں پر لوگ اکٹھا کرنے کی اچھی خاصی طاقت موجود ہے۔اس جلسے نے دوسرا تاثر یہ بھی دیا کہ جس طرح سے بے تحاشہ لوگ اسلام آباد پہنچے اس سے کم سے کم لئے یہ تاثر تو ماند پڑگیا کہ عمران خان کے پاس اسٹریٹ پاور نہیں ہے۔ کیونکہ وہ عوام جو کل تک مہنگائی کی دہائیاں دے رہی تھی اب ہر ایک کی قومی غیرت جاگ گئی ہے جب سے عمران خان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اس لئے اقتدار سے ہٹایا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے آزاد خارجہ پالیسی بناتے ہوئے ”سب سے دوستی اور کسی سے دشمنی نہیں”کی ڈپلومیٹک اصول کو اپنایا۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی جہاں تحریک انصاف کی مقبولیت میں تیزی سے گراوٹ دیکھنے کو مل رہی تھی اب اسی اسپیڈ سے اس میں اضافہ ہورہا ہے جو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے فیز ٹو میں تحریکِ انصاف کو زبردست پذیرائی کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ وہ اضلاع جہاں تحریک انصاف کمزرو تھی وہاں بھی اس نے بڑے برجوں کو شکست دی۔ دیر میں جماعت اسلامی کو اس کے امیر سراج الحق کے آبائی تحصیل میں، ایبٹ آباد میں مرتضی جاوید عباسی کے صاحبزادے، شانگلہ میں امیر مقام کے صاحبزادے اور مانسہرہ میں بھی ن لیگ کو بری طرح شکست دی جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عمران خان کے امریکی دھمکی آمیز خط کے بیانیے کو خیبر پختونخوا میں زبردست ویلکم کیا گیا ہے۔اگر اپوزیشن کے لئے آنے والے سیاسی مشکلات کی بات کی جائے تو عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی اپوزیشن کوئی ایسا اقدام نہیں کر سکتی جس سے تمام سابقہ قوانین کو ختم کیا جاسکے جو عمران خان کی حکومت نے الیکٹرانک مشین کے ذریعے انتخابات کے لئے اور کرپشن کے خلاف بنائے تھے اور نا ہی صدرپاکستان کو وزیراعظم کے مشورے کے مطابق اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 48 کے مطابق صدر پابند ہوتا ہے وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنے کا لیکن اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرتا بھی ہے تو تب بھی صدر کو عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا کیونکہ آرٹیکل47کے کلاز8کے مطابق صدر کو امپیچ کرنے کے لئے بھی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کا اس سے متفق ہونا ضروری ہوگا جو اس وقت اپوزیشن کے پاس نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو صدر اپنے عہدے پر تب تک موجود رہے گا جب تک اس کی مدت مکمل نہیں ہو جاتی۔ اسی طرح چاروں صوبوں کے گورنروں کی تعیناتی بھی صدر وزیراعظم کے مشورے پر کرتا ہے لیکن اگر عارف علوی صاحب اس سے انکار کردیں تو بھی ان کا عہدہ برقرار رہے گا۔ یوں اپوزیشن کے لئے حکومت کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گی جس سے وہ قومی اسمبلی کو وقت سے پہلے ہی تحلیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس صورت میں عمران خان کے لئے دونوں جانب سیاسی جیت کی صورتحال ہوگی۔ اپوزیشن اگر انہیں5سال حکومت مکمل کرنے دیتی تو ممکن تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے ہی انہیں عوام کی جانب سے حمایت نا ملتی مگر اپوزیشن نے صرف اپنی اس انا کی خاطر کہ ”عمران خان کو کسی بھی صورت5سال مکمل کرنے نہیں دینا”کی وجہ سے ہی عمران خان کی عوامی ریٹنگز کے گراف کو منفی سے مثبت میں پہنچا دیا ہے۔ اب اگر انتخابات ہوتے ہیں تو عمران خان کے پاس عوام کو دینے کے لئے مضبوط جواز ہوگا کیونکہ پاکستانی عوام میں امریکہ مخالف جذبات بالکل ویسی ہی ہے جس طرح بھارتی عوام میں پاکستان کے خلاف پائی جاتی ہے۔ عمران خان اسی امریکی خط کو لیکر آئندہ انتخابی مہم چلائیں گے اور اسے خوب کیش بھی کریں گے جبکہ اپوزیشن (جو کہ بے شمار جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنائے گئی)کے پاس عوام کو دینے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اس ایک سال کے عرصے میں اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لئے ہی انہیں بہت سی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ لہٰذا عمران خان کو ہٹاکر اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی ماری ہے جس کا ایک عملی نمونہ انہوں نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں دیکھ لیا ہے کیونکہ ان کے پاس اب یہ جواز بھی نہیں ہوگا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ لیکر آئی ہیں یا پھر اسے امریکہ اور یورپ کی یہودی لابی کی حمایت حاصل ہے۔

مزید پڑھیں:  قومی اتفاق رائے کی ضرورت