احتجاج کی تیاری اور ممکنہ تصادم کا خطرہ

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دن تحریک انصاف کے حامی ایک بار پھر پارلیمنٹ ہائوس کے باہر اکٹھے ہونے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر بھی مہم چلائی جا رہی ہے اختتام شدہ ماہ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی ‘ پاکستان مسلم لیگ نون ‘ جمعیت علماء اسلام (ف) اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد میں طاقت کا مظاہرہ کر چکے ہیں جس کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں میدان لگانے اور ممکنہ طور پر جوابی اقدام کے طور پر کارکنوں کو کال دے کرتصادم اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں ایسا کرناصرف انتظامیہ ہی کے لئے مشکلات پیدا کرنا نہیں بلکہ یہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بھی خلاف ورزی متصور ہو گی ۔تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اب تک کے منظر نامے میں اس کی کامیابی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے اور اتوار کے دن آئینی طور پر اس کے فیصلے کا آخری دن ہے اگرچہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے کارکنوں کو کوئی کال نہیں دی گئی ہے لیکنایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے پرجوش کارکن تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کے نتائج کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور وہ اسلام آباد جا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ان کے جذبات پر تو قدغن نہیں لگائی جا سکتی اور وہ ملک بھر میں جہاں چاہیں احتجاج کر سکتے ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے دن اسلام آباد پہنچ کر ووٹ دینے والے ارکان کو ممکنہ طور پر روکنے کی کوشش کرکے یا پھر سڑکیں بند کرکے اراکین ا سمبلی کو ایوان پہنچنے میں مشکلات کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی تو پھر یقینی طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے ۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی وزارت داخلہ اور ضلعی انتظامیہ کو پہلے ہی اس طرح کی ممکنہ صورتحال کا ذمہ دارٹھہراتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جا چکی ہے علاوہ ازیں بھی یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ مناسب سمجھے تو دفعہ 144 لگا کر اسلام آباد میں ہجوم کے اکٹھا ہونے کی ممانعت کر سکتا ہے جبکہ حفظ ماتقدم کے طور پر اسلام آباد کے داخلی راستوں کو بند کرنے کی تدبیر کر سکتا ہے ۔تحریک انصاف کے کارکنوں کے جواب میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دیں اور سڑکوں پر تصادم کی کیفیت خدانخواستہ پیدا ہو ان تمام خدشات کے باعث تحریک ا نصاف کی قیادت اور خصوصاً وزیر اعظم عمران کی جانب سے اپنے کارکنوں کو جذبات کا اظہار اسلام آباد کی بجائے اپنے اپنے حلقوں اور علاقوں میں کرنے کی سختی سے ہدایت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تصادم کی کیفیت پیدا نہ ہو اور ملک میں خدانخواستہ بدامنی اور انتشار کی نوبت نہ آئے جہاں تک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا تعلق ہے اس کا فیصلہ ایوان میں ہونا ہے اور وہی مناسب فورم ہے ۔تحریک عدم اعتماد کسی حکومت کے خلاف پیش ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور نہ ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کوئی انوکھی بات ہو گی ۔تحریک عدم اعتماد پیش کرنا حزب اختلاف کا حق ہے اور اسے کامیاب بنانے کی ذمہ دار ی بھی انہی کی ہے جو تمام تر حالات کے باوجود اب بھی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں لگتا جس سے قطع نظرحکومت کو اپنے دفاع کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے حکومتی جماعت کی جانب سے اپنے اراکین کو پارلیمان کے اجلاس میں غیر حاضر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جس کی یقینا وہ پابندی کریں گے اور جو لوگ پارٹی قیادت کی ہدایت سے انحراف کریں گے ان کے خلاف کارروائی کا بھی طریقہ کارموجود ہے ایسے میں ایوان کے اندر مقابلہ کرنے اور جواب دینے کی بجائے سڑکوں پر دعوت مبازرت کوئی دانشمندانہ سیاسی فیصلہ قرار نہیں پائے گا بلکہ اگرتحریک انصاف کی جانب سے خواہ وہ قیادت کی سطح پر ہو یا کارکنوں کے ذریعے اگر ابتداء ہی سے تصادم کی پالیسی اختیار کی گئی تو یہ قیادت اور کارکنوں دونوں کے لئے بڑا امتحان ثابت ہو گاجس سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور جس کی اس وقت ملک متحمل نہیں ہو سکتا بہتر ہو گا کہ سیاسی و جمہوری روایات اختیار کی جائیں اور نتیجے کو تحمل و برداشت کے ساتھ قبول کیا جائے اور ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے جس سے تصادم کی راہ ہموار ہو۔

مزید پڑھیں:  خود کو بدلیں