کیا سے کیا ہوگیا دیکھتے دیکھتے

لیجئے نیا باب خود خان صاحب نے یہ کہہ کر کھول دیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں تین آپشنز دیئے ”عدم اعتماد کا سامنا کریں ‘استعفیٰ دیں ‘ انتخابات کا اعلان کر”اب سوال یہ ہے ہم کس بات کو درست سمجھیں ؟ اولاً چوروں نے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہونے والی تعمیروترقی سے گھبرا کر عوام کے خلاف محاذ بنالیا ہے ؟ عدم اعتماد کی تحریک کو بیرونی مالی تعاون ملا اس مال سے اپوزیشن میرے ارکان خرید رہی ہے ؟ میں تو اللہ سے دعا مانگتا رہا کہ یہ چور میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں دعا قبول ہوگئی اب یہ پھنس گئے ہیں میں انہیں چھوڑوں گا نہیں ۔ میرے خلاف امریکہ نے سازش کی اپوزیشن اس سازش میں شریک ہے یہ غدار ہیں ، دن بدن موقف تبدیل ہوتا رہا مگر ان کے دیوانے ہر نئے موقف کو ”حق ”قرار دیتے ہوئے پچھلے موقف پر سوال کو ملک دشمنی قرار دے رہے ہیں ، ادھر عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ آپشنز ہم نے نہیں دیئے وزیراعظم چاہتے تھے اپوزیشن سے بات کرکے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے ، دوسری جانب دودن قبل نیشنل سکیورٹی کونسل( قومی سلامتی کمیٹی)نے بیرون ملک تعینات اپنے سفیر کی جانب سے بھجوائے گئے سفارتی مراسلے(سفارتی کیبل)میں غیرملکی آفیشل کی طرف سے استعمال کی گئی زبان(اس کی نشاہدہی سفارتی کیبل میں کی گئی)کو غیرسفارتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں۔ غیرسفارتی زبان پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اسلام آباد میں متعلقہ ملک کے سفارتخانے اور اس کے دارالحکومت میں سخت احتجاج ریکارڈ کروانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم کی صدارت میں منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کے سفارتی مراسلے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اسی دن (جمعرات کو ) سینئر امریکی سفارتکار کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ بھی دیا گیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق سفارتکار کی طلبی قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں عمل میں لائی گئی۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ہینڈ پرائس نے پاکستانی وزیراعظم کے قوم سے خطاب میں امریکہ پر لگائے گئے الزامات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا حامی ہے۔ وزیراعظم کے الزامات درست نہیں۔ امریکی حکام گزشتہ سے پیوستہ روز بھی ایسی کسی سفارتی ملاقات اور گفتگو بھی تردید کرچکے جس کا ذکر اس سفارتی مراسلے میں ہے جو جمعرات کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں زیربحث آیا۔ جمعرات کی شام وزیراعظم نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملک مجھے پسند نہیں کرتا وہ چاہتا ہے کہ میں جائوں اور اس کے تین وفادار غلام اقتدار میں آئیں۔ انہوں نے اپنے اس موقف کو پھر دہرایا کہ میری حکومت کے خلاف سازش بیرون ملک میں تیار ہوئی اور اپوزیشن اس سازش کا حصہ ہے۔ قوم سے خطاب میں گو انہوں نے معمول سے ہٹ کر مخالف سیاستدانوں کو ان کے ناموں سے مخاطب کیا مگر ان کے خلاف سخت زبان پھر بھی استعمال کی اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غداری سے تعبیر کیا۔ مگر وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں میری حکومت کے خلاف امریکی سازش اور اپوزیشن کو بیرونی مالی امداد جسکا دعوی وزیراعظم کررہے ہیں پر بھی غور ہوا سوال یہ ہے ان دو الزامات کو کمیٹی کے اجلاس میں زیر بحث کیوں نہیں لایا گیا ؟ بظاہر تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ الزامات فقط کمپنی کی مشہوری کیلئے ہیں ٹھوس ثبوت موجود ہوتا تو وزیر اعظم اسے کمیٹی کے سامنے رکھتے۔ سفارتی مراسلے میں امریکی آفیشل کی جس گفتگو اور لب و لہجہ کی نشاندہی کی گئی اس پر قومی سلامتی کمیٹی کی تشویش اور ردعمل بجا طور پر درست ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کسی بھی ملک کے داخلی و خارجی امور کے حوالے سے سفارتکاروں کی ملاقاتوں میں تجزیاتی گفتگو معمول کا حصہ ہے مگر ایسی گفتگو تجزیہ کے زمرے میں نہیں آتی جس سے یہ تاثر ملے کہ دبے لفظوں میں داخلی اور خارجی پالیسیوں میں اپنائی گئی آزاد روی کسی بڑی طاقت کیلئے ناقابل قبول ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے پر دفتر خارجہ میں امریکی سفارتکار کی طلبی اور احتجاجی مراسلہ دیئے جانے کا عمل بھی سوفیصد درست ہے۔ امریکہ یا کسی بھی بڑی طاقت کو یہ زعم نہیں پالنا چاہیے کہ ترقی پذیر ممالک عالمی سیاست کی دھڑے بندیوں میں ان کے تابع فرمان کا کردار ادا کرتے رہیں۔ سفارتی مراسم اور تعلقات تابع فرمانی پر نہیں مساوات کے باوقار اصول پر استوار ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)

مزید پڑھیں:  قومی اتفاق رائے کی ضرورت

امریکہ سمیت عالمی برادری کے دوسرے ممالک کو اقوام کے حق خودمختاری اور دیگر امور کے حوالے سے اقوام متحدہ کے متفقہ چارٹر سے انحراف کی روش ترک کرنا ہوگی اور یہ بھی سمجھنا ہوگاکہ ترقی پذیر اقوام ان کی جیب کی گھڑی ہرگز نہیں۔ مکرر اس ضمن میں دوباتیں عرض کرنا بے حد ضروری ہیں ایک تو یہ کے ایسی سفارتی کیبلز معمول کا حصہ ہیں دوسری بات یہ ہے کہ سفارتی کیبلز کے متن کو اپنی سیاست کا رزق بنانے کی سوچ اور عمل درست نہیں یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ وزیراعظم27مارچ کی شام سے اس سفارتی کیبل کو دھمکی آمیز خط بیرونی سازش اور اپوزیشن کو غیر ملکی فنڈنگ کے اپنے الزام سے ملا کر پیش کررہے ہیں لیکن اس پر انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں بات نہیں کی کیوں ؟ اس سوال کا جواب تو خود ان کے پاس ہی ہے ۔ہم عرض کریں گے حب الوطنی مشکوک ٹھہرے گی آجکل ویسے بھی حب الوطنی کا سیلاب آیا ہوا ہے ، جہاں تک قوم سے خطاب میں وزیراعظم کے خیالات اور اپوزیشن پر لگائے گئے سنگین الزامات کا تعلق ہے تو بیرونی سازش اور فنڈنگ میں اپوزیشن کے کردار پر اگر وزیراعظم کا الزام درست ہے تو قومی سلامتی کمیٹی میں بات کی جانی چاہیے تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی میں سفارتی مراسلہ پر غور وفکر کے دوران اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش اور فنڈنگ کے الزامات کے ثبوت پیش نہ کرکے انہوں نے اس موقف کو تقویت دی ہے کہ یہ دونوں الزامات سیاسی کھیل کا حصہ ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کی الزام تراشی ایک عام سی بات ہے۔ اس امر پر کبھی کسی نے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ بلاثبوت لگائے جانے والے سنگین الزامات بالخصوص مخالفین کو غداری کا مرتکب قرار دینے سے سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان موجود اختلافات شدت پسندی میں تبدیل ہوتے ہیں اور اس سے سیاسی عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ اپنی سیاست اور فہم ہر دو کا وزیراعظم کو ڈٹ کر دفاع کرنے کا جمہوری حق ہے وہ ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں اسی طرح انہیں اپنے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا بھی جمہوری انداز میں سامناکرنا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ہمدردوں کو بطور خاص اس امر کو مدنظر رکھناچاہیے کہ سیاسی اختلاف معرکہ کفرواسلام ہوتے ہیں نہ یہ ا ختلافات حب الوطنی اور غداری کے پیمانے۔ سیاسی اختلاف جماعتوں کے انتخابی منشور اور طرزحکمرانی پر ہوتے ہیں یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی میں زیربحث آنے والے سفارتی مراسلے کے حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ اگر یہ سفارتی مراسلہ 7یا 8مارچ کو موصول ہوگیا تھا تو وزیراعظم نے اس کا ذکر کرنے کے لئے 27مارچ کی شام تک انتظار کیوں کیا۔ انہوں نے 8سے 27مارچ کے درمیانی عرصہ میں قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس طلب کرنے کی ضرورت کو نظرانداز کیوں کیا؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ اپوزیشن سمیت بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپوزیشن کے خلاف بیرونی سازش کا حصہ بننے کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا گیا۔ اگر اپوزیشن واقعی کسی بیرونی سازش میں ملوث تھی تو 9مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس بلاکر سفارتی مراسلہ کے ساتھ دیگر ثبوت بھی کمیٹی کے سامنے رکھے جاتے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ اب جبکہ متعلقہ ملک سے سفارتی سطح پر احتجاج کرلیا گیا ہے تو سفارتی مراسلے اور وزیراعظم کے اپوزیشن پر لگائے جانے والے الزامات کو گڈمڈ کرکے ایسا بیانیہ تشکیل نہ دیا جائے جس سے نظام اور سیاسی عمل کے لئے خطرات پیدا ہوں یا سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو امید ہے کہ اس امر کو بہرصورت مدنظر رکھا جائے گا ، اب آئیے کالم کے آغاز پر وزیر اعظم کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بقول ان کے تین آپشنز دیئے جانے پر مختصرا دوبارہ بات کرلیتے ہیں یہ عرض کرچکا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع اس کی تردید کررہے ہیں بلکہ ان کا موقف ہے کہ وزیراعظم یہ چاہتے تھے کہ اپوزیشن سے بات کرکے درمیانی راستہ نکلوانے میں مدد دی جائے ۔ سوال یہ ہے کہ جوبات عالمی سازش سے شروع ہوئی سفارتی کیبل کو دھمکی آمیز خط بناکر اس میں رنگ بھرا گیا اس میں اسٹیبلشمنٹ کہاں سے آگئی ؟ بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ ناتجربہ کاری اور سوچے سمجھے بغیر بات کہہ دینے کی عادت نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انہوں نے ملک کے لئے مسائل تو پیدا کیئے ہی خود اپنی بچی کھچی ساکھ بھی داو پر لگادی ، حاصل وصول کیا ہوگا یہ الگ سوال ہے بنیادی بات یہ ہے کہ اس ساری کھیل کی ضرورت کیا تھی ؟

مزید پڑھیں:  عوام کی مشکلات کا بھی کسی کو خیال ہے؟