جو بات ہے سو خوب ہے

کوئی دس بارہ روز سے سوشل میڈیا پرآرہاتھا کہ وزیر اعظم نیا زی نے طاقت وروں کے ذریعے پیش کش کی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتما د واپس کرلی جائے تو وہ وقت سے پہلے نئے انتخابات کے لیے تیا ر ہیں جس کو اپوزیشن اتحاد نے مسترد کر دیا ۔ تاہم اس خبر کی تردید یا تصدیق کسی جا نب سے نہیں کی گئی ۔تاہم یہ یقین تھا کہ خبر میں جھول ہے کیو ں کہ پیغام رسانی کا حوالہ جن کی طرف کیا جارہا تھا ان کے بارے میں فریقین کا یہ کہنا تھاکہ وہ غیر جانب دار ہیں ۔ غیر جا نب داری کے ماحول میں ان کے ذریعے پیغام رسانی کی تُک نہیں بنتی تھی ۔ تاہم گزشتہ روز وزیر اعظم نے ایک نجی ٹی وی کو دئیے گئے اپنے اپنے ایک انٹرویو میں اپنے انداز میں یہ منکشف کردیا کہ ان کواپو زیشن نے اسٹبلشمنٹ کے ذریعے یہ ہدیہ پیش کیا کہ اپو زیشن تحریک عدم واپس کرلے گی اگر وہ مستعفی ہو جائیں یا پھر وقت سے پہلے نئے انتخابات کرائیں یا تحریک عدم اعتما د کا سامنا کریں ۔ وزیر اعظم کا کہنا یہ تھاکہ انھو ں نے جو اب میں بتایا کہ وقت سے پہلے انتخابات بہتر ہیں تاہم وہ مستعفی نہیں ہو ں گے وہ تو آخری گیند تک کے کھلا ڑی ہیں وہ کھیلیں گے ان کا یہ بھی فرما نا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد میں ان کو شکست ہو بھی جائے تو وہ ڈٹے رہیں گے ۔یہ پھر بھی ڈٹے رہنے کا معمہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔وزیر اعظم کی جانب سے دو ٹو ک انداز میںیہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک پر ووٹنگ کے موقع پر وہ سرپرائز دیں گے ۔اس سرپرائز کے بارے میں بھی قیاس آرائیا ں کی جا رہی ہیں کہ وہ سرپر ائز کیاہو سکتا ہے ۔لگتا یہ ہے کہ کسی بھی حیلے اپو زیشن کو مطلوبہ تعداد پوری کرنے سے محروم کر کے رکھ دیا جائے گا ۔قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلا س میں اپو ز یشن نے اپنی عددی برتری کھول کررکھ دی جس میں پی ٹی آئی کے وہ ارکان شامل نہیں تھے جنہو ں نے اس وقت اپنے اعتماد سے وزیراعظم کو محروم کررکھا ہے ۔ آج سب کچھ کھل جائے گا چند گھنٹوں کا معاملہ رہ گیا ہے ۔تاہم پیغام رسانی کی بات کھل جا نے سے غیر جا نب داری کا یقین ضرور ڈگمگا یا ہے ۔البتہ ایک معروف صحافی مطیع اللہ جا ن نے خبردی ہے کہ جن کے بارے میں وزیر اعظم نے پیغام رسانی کی اطلاع عام کی ہے ان کی طرف سے وضاحت آئی ہے کہ وہ وزیر اعظم سے پیغام رسائی کے لیے نہیںگئے تھے بلکہ ان کو وزیر اعظم ہاؤس مدعو کیا گیا تھا اور ان تین نکا ت پر بات ہوئی تھی جس کے بعد اپوزیشن کوآگاہ کیا گیا ، تو اپوزیشن نے مستعفی ہونے یا تحریک کا سامنا کر نے کے بارے میں رائے دی ۔جب کوئی تحریک چلتی ہے تو اس کے دیگر اثرات بھی پیدا ہو جا تے ہیں اس سارے کھیل میں یہ نشاندہی بھی ہوئی کہ امریکا اورپاکستان اب الگ الگ قرطاس رقم کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم جب صریر آراء اقتدار ہوئے تھے ان کے امریکا سے انتہائی خوشگوار تعلقات دیکھنے کو ملے تھے اوریہ جا ناجا رہا تھا کہ وزیر اعظم عمر ان خان کی قیا دت میں امریکا کے ساتھ تعلقات میں مثالی پائیداری آجائے گی اور تما م بکھیڑے سمٹ کر ختم ہوجائیں گے ۔ یہ دیکھنے کو ملا
کہ ٹرمپ کے دور میں جب وزیر اعظم نے امریکا کی یا تر ا کی تب ان کی واپسی پر باچھیں خوب کھلی کھلی تھیںاسی شادما نی میںوزیر اعظم نے فرمایاتھا کہ وہ امریکا سے واپسی پر ایسا محسوس کر رہے ہیں وہ دوسری مرتبہ ورلڈ کپ جیت کر آرہے ہیں ۔ کرکٹ کے 92ورلڈ کپ نے پاکستان پر بڑے ہی گہر ے اثرات چھوڑ رکھے ہیں ہنو ز سلسلہ جار ی ہے ۔بعض عناصر تو یہ کہتے ہیں کہ کا ش کرکٹ کا یہ ورلڈکپ منعقد ہی نہ ہوتا ۔تحریک عدم اعتما د کی مہم جوئی میں یہ صورت حال بھی سامنے آئی کہ وزیراعظم نے ایک بہت بڑے اجتما ع جس کے بارے میں تحریک انصاف کے اکا بر کا ادعا ہے کہ لاکھو ں کا مجمع تھا ایک خط لہر ا کر قوم کو آگاہ کیا کہ ان کے خلا ف سازش ہورہی ہے بعد ازاں یہ بھی اکتشاف ہو ا کہ اس میں امریکا ملوث ہے ۔ ٹرمپ کی رخصتی کے بعد ہی پاکستا ن اور امریکا کے تعلقات میں ایک بے خوشگوار موڑ آیا ہے ۔خط کے بارے میں گزشتہ گفتگو کے کا لم میںبات ہو چکی ہے اس وقت یہ معاملہ ہے کہ دو اچھے دوست اپنی اپنی راہ کیو ں لگ گئے ۔ سفارتی چالیں بڑی سنبھل
کر کھیلی جا تی ہیں ان میں اناڑی پن کی کوئی گنجائش نہیں ہو تی کرکٹ کھیل میں باؤلر ہر گیند مقابل کو آوٹ کر نے کی غرض سے پھینکتا ہے مگر ہر گیند مر اد نہیں بر لا تی اس پر چھکے چوکے بھی لگ جا یا کرتے ہیں وزیر اعظم کی جانب سے بڑی شد ت سے اظہا ر کیا جا تا رہا کہ ٹرمپ کی جگہ لینے والے صدر جو بائیڈن نے انھیںفون نہیں کیا جب کے روایا ت میںشامل ہے کہ نو منتخب امریکی صدر عہدہ سنبھالنے کے بعد مختلف ممالک کے سربراہوں کو ٹیلی فون کر کے خیر سگالی کا اظہا رکرتا ہے ۔سفارتی آداب میں یہ شامل ہے کہ اگر کوئی انوکھی ہو جائے تو اپنے سفارتی نمائندوں سے رجو ع کر کے کھوج لگایا جاتاہے کہ تبدیلی کی وجو ہ کیا ہیں ۔ سفارتی یا خارجی تعلقات میں گلے شکو ے کے ڈھنگ ایسے نہیں ہو ا کرتے ۔ جب امریکا کے ایک سابق فوجی سربراہ مائیک میولن نے اپنے ایک تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا واضح طورپر پا کستان سے فاصلہ اختیا رکر چکا ہے ، اس کے ساتھ ہی جنرل (ر) مائیک میو لن نے یہ بھی کہا کہ پا کستان چین کی چھتری کے نیچے جا تا جا رہا ہے ، یا د رہے کہ مائیک میولن کا نا م میمو گیٹ اسکینڈل میں بھی سامنے آیا تھا ۔خارجی تعلقات میں ضروریات کی بھی بڑی اہمیت ہو تی ہے ، قیا م پاکستان کے وقت دنیا دوحصوں میں بٹی ہوئی تھی ایک سرمایہ دار ی اور دوسری اشتراکت میں تقسیم تھی ، بھارت نے اشتراکت بلا ک سے دوستی کا ہا تھ بڑھا یا تھا اورامریکا کو اشتراکیت سے محفوظ رہنے کے لیے دوست چاہیے تھے چنا نچہ اس نے اپنا جھکاؤ پا کستان کی طر ف رکھا لیکن امریکا کو روس کی سرحد سے متصل دوست ملک کی ضرورت تھی چنانچہ اس نے پاکستان کندھوں پر بیٹھ کر چین سے دوستی حاصل کی ۔ دونو ںکی دوستی بے لو ث نہیں تھی اس لیے آگے چل کر پائنداری پیدا نہ ہوپائی پھر اشتراکیت کا شیر ازہ بکھر جا نے سے امریکا کے مفاد بھی بدل گئے چنا نچہ چین امریکی دوستی میں بھی رخنہ پڑ گیا ۔ افغانستان کی بناء پر امریکا کی ضرورت پاکستان رہا چنا نچہ اب یہ ضرورت باقی نہیں رہی ہے چنا نچہ لگتا ہے کہ امریکا نے اپنا پاؤں کھینچ لیا تاہم ایک بات لازمی ہے کہ خارجی تعلقات کی نوعیت صرف اغراض پر مبنی نہین ہو اکرتے بلکہ کا میا ب خارجہ پالیسی کی مضبوط بنیا د اور مقاصد کے اصولو ں پر بھی مبنی ہو اکرتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  عوام کی مشکلات کا بھی کسی کو خیال ہے؟