کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

خوشی سے مرنے کا مقام تو غالب کے بقول یقینا ہے مگر مرزا نوشہ نے وہ جو شرط عاید کی ہے اس کا کیا ہوگا ‘ یعنی بات اعتبار کی ہے ‘ جس پر شکوک کے سائے لہرانے میں کوئی کلام نہیں ہے ‘ کیونکہ وفائے وعدہ نہیں ‘ وعدہ دگر اگرچہ ہے مگر ماضی کے تجربات کی تلخیاں ایسی لپٹی ہوئی ہیں کہ اعتماد متزلزل کئے دے رہی ہیں’ بقول شاعر
کوئی وعدہ ‘ نہ دلاسا ‘ نہ تسلی ‘ نہ دعا
اس نے جاتے ہوئے اس بار قیامت کر دی
اگرچہ جوخبریں گزشتہ دو دنوں میں سامنے آئی ہیں ان میں وعدہ ‘ دلاسا اور تسلی تو موجود ہے جبکہ دعاء کا حق ہم غریب عوام کے ذمے ہے اور ظاہر ہے عوام تو اب صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اب کی بار یہ دعائیں رنگ ضرور لائیں ‘ یعنی رمضان کے مہینے میں (کم از کم) سحری اور افطاری کے اوقات میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو ‘ یعنی یہی دو خبریں سامنے آتی ہیں جن میں متعلقہ اداروں نے گزشتہ سالوں کی طرح ایک بار پھر عوام کولالی پاپ تھمانے کی کوشش کی ہے ‘ یعنی یکم اپریل کے اخبار میں سوئی گیس لوڈ شیڈنگ اور دو اپریل کے اخبار میں بجلی کے لوڈ شیڈنگ سے ”احتراز”کرنے کے بیانئے سامنے آتے ہیں ‘ مگر وہ جو اردو زبان کے محاورے میں بیان کی گئی کیفیت ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے تو گزشتہ برسوں میں بھی رمضان کے مہینے میں اسی طرح عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا تھا ‘ مہینے کے ابتدائی چند روز میں صورتحال خاصی حوصلہ افزاء تھی مگر جیسے ہی دن گزرتے گئے ‘ دونوں محکموں کے اندر بیٹھے ہوئے بعض ”عاقبت نااندیش” افراد کے ہاتھوں میں کھجلی ہونا شروع ہوئی اور لوڈ شیڈنگ والے بٹنوں کو آف کرکے اپنی انائوں کو تسکین پہنچانے پر مجبور ہوئے ‘ کیونکہ اتنی مدت سے ان کی جو عادت ثانیہ بن چکی ہے آخر اسے بھی تو سکون پہنچانا ضروری تھا ‘ بالکل اس بچھو اور مگرمچھ کی کہانی کی طرح جب بچھو اپنی عادت سے مجبور ہو کر دریا کی سیر کے دوران مگرمچھ کی پیٹھ میں ڈنک مارتا رہا ‘ اگرچہ مگر مچھ نے بھی اپنی فطرت سے مجبور ہو کر غوطے لگانے لگا تو بچھو کی عقل ٹھکانے آگئی تھی ‘ لیکن یہ جو بجلی اور گیس لوڈ شیڈنگ سے عوام کو”ڈنک”مارنے کی عادتیں ہیں ‘ ان کا عوام کے پاس کوئی جواب نہیں جس پر عمل کرنے سے محولہ دونوں محکموں کے اندر بعض مبینہ ”بچھوئوں” کو راہ راست پر لایا جائے ‘ تو ظاہر ہے بے چارے یا تو صبر کرسکتے ہیں یا پھر جو زیادہ جذباتی ہیں وہ جھولیاں پھیلا پھیلا اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر منہ بھر کر بددعائیں ہی دے سکتے ہیں’
نیش عقرب نہ از رہ کیں است
مقتضائے طبیعتش ایں است
ویسے سیانوں نے یہ بھی توکہا ہے کہ مایوسی کفر کی مانند ہے ‘ اس لئے حاشا وکلا ہم مایوسی پھیلانے کی قطعاً کوشش نہیں کر رہے ہیں ‘ مگر کیا کیا جائے ہم بھی مجبور ہیں کہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں متعلقہ محکموں کے طریقہ ہائے واردات کی نشاندہی کریں ۔ اس لئے ہم اپنے قارئین کرام سے یہی التجا کر سکتے ہیں کہ ہمارا یہ کالم سنبھال کر رکھیں اور جب رمضان المبارک کے دوران انہیں اپنی مٹھی سے ”وعدوں کی ریت” پھسلتی نظر آئے تو پھر ہمارے ان خدشات کو ضرور یاد کرلیں ‘ اس کا اگرچہ اب بھی ہمارے پاس ثبوت موجود ہے یعنی لگ بھگ تین ساڑھے تین ماہ پہلے سوئی گیس والوں نے اور کسی سے بھی نہیں وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ ایک اجلاس میں صوبائی دارالحکومت میں گیس کی قلت دور کرنے کے جو وعدے وعید کئے تھے ‘ ان پرعمل درآمد کی صورتحال یہ ہے کہ لوگ اکثر و بیشتر احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ہیں ‘ بلکہ بعض علاقوں میں تو گھریلو خواتین بھی اس احتجاج کا حصہ بنی تھیں ‘ اس لئے تو ہم ان وعدوں کے حوالے سے پشتو محاورے کو درمیان میں لا کر ”دا گز دا میدان” کا حوال دیتے ہوئے گزارش کرتے ہیں کہ دیکھ لینا ان وعدوں کو ‘ اور اب بھی زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی ‘ کیونکہ ممکن ہے جب یہ تحریر آپ کی نظروں سے گزرے تو ماہ رمضان کا آغاز ہو چکا ہو ‘ تو پھر بقول فیض احمد فیض ‘ چند ہی روز مری جان فقط چند ہی روز ‘ تب تک ذرا صبر کا دامن تھام لیجئے کہ ویسے بھی رمضان المبارک میں سارا انسانی نظام ہی صبر و شکر کی بنیاد پر قائم رہتا ہے ‘ اس لئے جذبات پر قابو رکھئے اور جب صبر کی حدیں تمام ہو جائیں تب بھی جذبات کوقابو رکھیں ‘ اللہ تعالیٰ سے بہتری کی دعا طلب کریں ہاں اگر اخبارات میں احتجاج پر مبنی بیانات دینا چاہیں تو ضرور دیں کیونکہ پشتو میں یہ بھی تو ایک کہاوت ہے نا کہ یتیم رونے کا عادی ہوتا ہے ‘
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
ان کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
حقیقت بھی یہی ہے کہ عوام کے چیخ و پکار کے مقابلے میں متعلقہ اداروں کی خموشی بھی زیادہ اہم اور قیمتی ہوتی ہے ‘ اس قسم کے احتجاج پر یہ ادارے کان دھرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ بہرحال جب تک یہ ادارے چابی نہ گھمائیں خواہ بجلی خواہ گیس ‘ کوئی بھی لوڈ شیڈنگ ہو ‘ اس کو لگے قفل نہیں کھلتے ۔ ان کی حالت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ اکثر فیس بک پر کسی پوسٹ میں ایسے تالے سامنے لاتے جاتے ہیں جو زنگ آلود ہوتے ہیں اور انہیں کھولنے میں بہت ہی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ‘ بعینہ پہلے زنگ اتارنے کے لئے انہیں بعض کیمیکلز میں ڈبو کر رکھا جاتا ہے پھر ریگ مال ‘ سوان اور دوسرے آلات سے بقیہ زنگ کو اتارا جاتا ہے پھربھی آسانی سے نہیں کھلتے ‘ تو یہی صورتحال ان محکموں کے اندرموجود بعض ایسے سنگدل افراد کی ہے جن کے دلوں کو زنگ لگ چکا ہے اور وہ عوام کو نہ جانے کس جرم کی پاداش میں”سزا”دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں ‘ بہرحال اس سے پہلے کہ عبرت مچھلی شہری کے بقول ہم پریشانی میں یہ کہہ دیں کہ
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کیلئے ہوتے ہیں
امید کا دامن ہمیں ضرور تھامنا چاہئے اور اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ چلو گزشتہ برسوں میں نہ سہی ‘ کم از کم اس بارضرور عوام پر رحم کرکے رمضان المبارک میں بجلی اور گیس لوڈ شیڈنگ سے انہیں نجات مل سکے ۔ اور نیلام گھر والے طارق عزیز مرحوم کا یہ شعر نہ دہرانا پڑے کہ
ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دکان کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

مزید پڑھیں:  عوام کی مشکلات کا بھی کسی کو خیال ہے؟