قومی اسمبلی میں استعفوں کا معاملہ

پرانی بات ہے کہ ایک صوبائی وزیر نے وزارت سے استعفیٰ دیا مگر اپنی سرکاری جھنڈے والی کار مسلسل استعمال کرتے رہے ۔ ایک دوست نے جب اس بے اصولی کی طرف اشارہ کیا تو موصوف نے کہا کہ ابھی تک استعفیٰ منظور ی کی اطلاع نہیں دی گئی ۔اسی طرح ماضی میں ایک مشہور وکیل ایس ایم ظفرکے استعفیٰ کا بھی بڑا چرچا رہا۔ اُنہوں نے صدر ایوب کی کابینہ سے بطور وزیر قانون استعفیٰ دیا تھا مگر اعلان نہ ہوا بلکہ یہ دعویٰ سننے میں آیا کہ یہ استعفیٰ مارشل لاء لگائے جانے کے خلاف احتجاج کے طور پہ صدر کو ارسال کیا جا چکا ہے ۔ اُنہوں نے پھر اپنی کتاب” بحران کا دور” میں یہ راز افشا کیا کہ استعفیٰ تو دے دیا تھا مگر تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے اسے خفیہ رکھا گیا اور اس کا اعلان نہ کیا۔ ایک عرصے بعد اُنہوں نے صدر کے سیکرٹری الطاف گوہر پہ خفیہ رکھنے کا الزام لگایا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ استعفیٰ کی وجہ سے مارشل لا کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جائے ۔ سیاست دانوں اور وزرا کو استعفیٰ کی منظوری میں لیپا پوتی کرنے کی حاجت نہیں ہونی چاہیے، اگر وہ کسی معاملہ پر حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو کسی حیلہ گری کے بغیر باقاعدہ اعلان کرے اورسب کچھ چھوڑ دے ۔ ہمارے ہاں ایسی روایت کا رواج کم ہے اس لیے غلام اسحاق خان کو جب استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جا رہاتھا تو لغت لے کر بیٹھ گئے کہ انگریزی لفظ ریزک نیشن کا مطلب فارغ خطی ہے یا دست برداری ، آخر قوم نے اُن سے بڑی مشکل پیچھا چھڑایا ۔استعفیٰ کے حوالے سے اس لیے یہ تمہید اٹھانی پڑی کہ آج کل قومی اسمبلی میں تھوک کے حساب سے استعفوں کا معاملہ پیش ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو اقتدار سے محرومی پر تحریک انصاف کے ارکان نے اسمبلی میں بیٹھنے کی بجائے اجتماعی طور پر استعفوں کا اعلان کیا اور اسمبلی سے چلے گئے ۔ اُنہوں نے پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے اپنا سیاسی کردار ادا کرنامناسب نہ سمجھا اور مُلک میں فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے لگے ۔ اسی دوران اُن کے چند اراکین کے استعفےٰ تکنیکی بنیاد پرمنظور ہوئے اورجن کے حلقوں میں ضمنی الیکشن بھی ہوگئے۔ تحریک انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ تمام اراکین کے استعفے اسمبلی میں کیے گئے اعلان کے مطابق اجتماعی طور پر منظور ہوں تا کہ فوری الیکشن کا انعقاد کیا جا سکے۔ اب موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر استعفوں کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے ۔اس سلسلہ میں سپیکر قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے وفد کی ملاقات ہوئی ۔ یہ ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی کیونکہ سپیکر نے واضح کر دیا کہ آئین و قانون کے تحت تما م اراکین کے استعفےٰ ایک ساتھ قبول نہیں کیے جا
سکتے اور ہر رکن کو اپنی تحریر کردہ درخواست کے ساتھ اکیلے تصدیق کے لیے آنا ہوگا ۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذرائع نے یہ بھی بتا یا ہے کہ تحریک انصاف کے چند اراکین نے ایوان کے رجسٹر پہ حاضری بھی کی ہے کچھ ارکان چھٹی کی درخواست بھی دے چکے ہیں ۔در اصل یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اور تحریک انصاف ان استعفوں کے معاملہ پر سیاست کر رہی ہیں ۔ یہ سب حیلے بہانے ہیں ، طرفین کی حالت یہ ہے کہ نہ کوئی استعفیٰ دینے کو تیار ہے اور
نہ کوئی استعفیٰ منظور کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔سال 2014کی صورتحال بھی یہی تھی کہ جب سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے اراکین سے ایک ایک کر کے آنے اور استعفیٰ دینے کی استدعا کی مگر سب اسمبلی سے باہر ٹھہرے رہے اور کوئی بھی اکیلا استعفیٰ دینے نہ آیا ۔ آخر اسمبلی میں آکر بیٹھ گئے اور پھر چار سال اس پارلیمنٹ میں خوب تماشا ہوتارہا ۔اب بھی سپیکر نے تحریک انصاف کے وفد کو پارلیمنٹ میں واپس آنے کی دعوت بھی دی ۔شروع سے لے کر اب تک پارٹی میں یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ،یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بر وقت سیاسی فیصلے کرنے کی استعداد نہ ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ استعفوں کا فیصلہ بھی ایک شخص کی خواہش تھی جس میں مشاورت نہیں ہوئی ۔ چار سال پہلے جب پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تو جمیعت علما اسلام نے انتخابات میں دھاندلی کے باعث اسمبلی کے بائیکاٹ اور استعفوں کا مشورہ دیا تھا مگر پیپلز پارٹی نے پارلیمان میں رہ کر مقابلہ کرنے کی تجویز دی اور پھر عدم اعتماد کے ذریعے کامیابی بھی حاصل کی ۔ سیاسی فکر رکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف اسمبلی میں موجود ہوتی تو ایک بہتر اور فعال جمہوری کردار ادا کر سکتی تھی ، انتخابی اصلاحات، احتساب کی قانون سازی اور معیشت جیسے اہم قومی امور کے فیصلوں میں شریک ہوتی۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ اگر حکومت وقت سے پہلے الیکشن کا اعلان کرے تو اسمبلی میں بھی بیٹھتے ہیں اور آپس میں مکالمہ بھی کرتے ہیں ۔ استعفوں کے معاملہ پر فریقین غلطی پر ہیں ، یہ جمہوری روایت قائم نہیں کر رہے ۔ سیاستدان اپنے سیاسی معاملات خود ہی نبھاتے ہیں اور مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں ۔ سیاسی رہنماؤں سے گزارش ہے کہ قوم کی بڑی آزمائش ہو چکی ، اب صرف اقتدار کی خاطر اسے مزید کسی امتحان میں نہ ڈالیں ۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے