''اپنے بندوں'' کے ہاتھوں صوبے کے پھر پوسٹ مارٹم کا فیصلہ

”اپنے بندوں” کے ہاتھوں صوبے کے پھر پوسٹ مارٹم کا فیصلہ

(سیدفخرکاکاخیل)لگتا ہے خیبرپختونخوا ایک بحران سے نکلے تو دوسرے بحران میں پھنس جاتا ہے ۔ پی ٹی آئی کے بعد صوبے کو جمیعت علماء اسلام کے حوالے کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ایک انتہا سے اب صوبہ دوسری انتہا پر جانے لگا ہے۔ خراب موسم میں جس طرح چھتری بدل لی گئی ہے جس سے نقصان کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ صوبے کو امن وامان کی ابتری کا سامنا تھا۔ ملک سعد شہید پولیس لائینز میں خودکش حملے کے بعد آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے جس طرح پریس کانفرنس کی اس کے بعد خیال یہ تھا کہ اب وفاق کی جانب سے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ان کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ پختونخوا پولیس میں دس برس کے دوران جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ایک بہترین فورس سے کاسمیٹک فورس تک جس طرح یہ پہنچی ہے اس کو ریورس کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور ان کی ازسرنو تعمیر و تنظیم کا آغاز کیا جاتا۔
آئی جی سے پوچھا جاتا کہ اسے کتنی سپورٹ چاہیئے، کتنا فنڈز چاہیئے، اس نئی جنگ کے لیے تربیت کا اہتمام کس طرح کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پہلے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو ہٹایا گیا۔ یعنی وہ افسر جو اس وقت اس جنگ کا سب سے اہم کمانڈر تھا۔ اتنا عرصہ گزارنے کے بعد افسر ادارے کا اس شعبے میں اثاثہ بن جاتا ہے۔ پھر آئی جی معظم جاہ انصاری کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔گو کہ نگران وزیراعلی نے کہا تھا کہ ان کو آئی جی پولیس سے کوئی ایشو نہیں ہے۔ تب یاد آیا کہ امن وامان تو ترجیحات میں ہے ہی نہیں اصل مسئلہ تو "اپنا بندہ” ہوتا ہے۔ سیاسی ماحول بدل چکا ہے اور اب "اپنے لوگ” لگانے والا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہی ہوتا چلا آ رہا ہے یہی ہوگا۔ دور بدل چکا ہے اب صوبے کی دو بڑی انتظامی عمارتوں کے مالکان بدل چکے ہیں۔ اس ملک میں کبھی چہرے بدلے جاتے تھے اب سر بھی بدل چکے ہیں۔
گورنر خیبر پختونخوا کی تعیناتی کے مسئلہ پر تاخیر سے تو قارئین واقف ہوں گے۔ اس عہدے کے لیے کہا جاتا ہے (جھوٹ ہی ہوگا) کہ حاجی غلام علی ہرگز پہلی ترجیح نہیں تھے۔ لیکن وہ آئے، وہ کھڑے ہوئے، حلف لیا اور بیٹھ گئے۔ یہی حقیقت ہے۔ یہ تو صوبے میں پی ٹی آئی کے انجام کا آغاز تھا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان چلے گئے۔ ضرورت تھی کہ ان کی جگہ پر اب ایک ایسے شخص کو لایا جاتا جو گزشتہ دس سالہ بربادی اور سونامی کے بعد گھر میں الٹ پلٹ ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھ دے ۔ گھر کی صفائی کرے ۔ اس لیے سابق بیوروکریٹ اعظم خان کو لایا گیا۔ تاہم آپ شاید بھول گئے کہ معاملہ انتظامی امور کا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے عنصر کو گھر میں بسایا جا رہا ہے کہ جو یہاں کے سابق مکینوں کے خلاف دشمنی کی حد تک بغض رکھتے ہیں۔سیاست اور کاروبار دشمنی اور انتقام سے نہیں چلتے لیکن صوبے کی بدقسمتی کہ صوبہ اس راہ پر چل نکلا ہے۔ پشاور کے باخبر حلقے جانتے ہیں کہ ٹونٹی ٹونٹی میچ کے لیے اس نگران کابینہ کا انتخاب کیسے ہوا۔ گورنر غلام علی نے نگران وزیراعلی اعظم خان کو سامنے بٹھایا اور ایک سیکرٹری کی طرح ایک ایک نام بتانے لگے۔ نگران وزیراعلی ایک چیف سیکرٹری کی طرح ہر نام پر اپنی رائے دیتے اور حاجی غلام علی سر ہلا کر منظوری دیتے رہے۔ وہی حالت تھی کہ ایک حصہ میرا کہ میں نے شکار میں حصہ لیا۔ دوسرا حصہ میرا کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں اور تیسرا بھی میرا اگر کسی کے باپ میں ہمت ہو تو لے لے۔ ایسے میں بے چارے سابق چیف سیکرٹری کیا کہتے۔ ساری عمر وہ یہی تو کرتے رہے ہیں۔ ہم شاید یہ بات بھی بھول گئے تھے۔
اب دوبڑے سفیدانتظامی گھروں میں دو باریش رہنماؤں کا راج ہے۔ یہاں تک توگورنر حاجی غلام علی کھیلتے رہے اس کے بعد صوبے کے جہاندیدہ سیاستدان اور بنوں سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی میدان میں اترے۔ گو کہ کابینہ میں بھی پس پردہ قائد جمیعت مولانا فضل الرحمن کی نمائندگی وہی کرتے رہے اور کریز پر ہی موجود تھے لیکن گورنر حاجی غلام علی نے رن لیا تووہ وکٹ پر آئے۔ اس وقت حیات آباد پشاور میں بیٹھ کر خوب چھکے چوکے لگا رہے ہیں۔ ان کے متحرک ہونے سے الیکشن کمیشن کے متحرک ہونے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔کیونکہ پوسٹنگ، ٹرانسفر وغیرہ کئی معاملات میں دیکھا جائے گا کہ نگران حکومت یہ کر سکتی ہے یا نہیں ؟اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ محکمہ ایریگیشن سمیت دیگر محکموں میں ہل جل کتنی ضروری تھی؟ یہ صرف ایک مثال ہے نچلی سطح سے شروع ہونے والی اس تبدیلی کی۔ شاید یہی وہ وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر ان سیاسی جماعتوں سے عوام کو نفرت پیدا ہوئی اور اب کہا جا رہا ہے کہ اگلی بار پھر عوام تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیں گے۔
آئی جی خیبرپختونخوا کی تبدیلی کی خبروں کے ساتھ ہی سابق آئی جی پختونخوا پولیس صلاح الدین محسود اور آئی جی گلگت بلتستان سعیدخان وزیر کے نام اس منصب کے لیے گردش کرنے لگے بہرحال ہم شاید پھر بھول گئے کہ اب فیصلوں کا اختیار کسی اور کے پاس ہے اور ان کے سامنے سیکیورٹی اداروں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔اس لیے کئی اور ناموں کے ہونے کے باوجود قرعہ فال قائدجمیعت مولانا فضل الرحمٰن کے علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے اختر حیات گنڈاپور کے نام نکلا۔ نئے آئی جی خیبرپختونخوا پولیس اخترحیات گنڈاپور کے کئی عزیز پولیس فورس میں ہیں۔ جب مالاکنڈمیں شورش برپا تھی انہوں نے وہاں بھی فرائض سرانجام دیئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقوں میں بات چل رہی ہے کہ ڈیرہ میں اب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر برائے امورکشمیر کے لیے اپنے علاقے میں اب زمین تنگ کر دی جائے گی۔ گو کہ آئی جی پولیس بھی گنڈاپور قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں جو دھاک جمائی ہے کسی نہ کسی شکل میں وہ پولیس کی "نظرکرم” کا شکار بن سکتے ہیں۔
صوبے میں انہی دو سفید عمارتوں اور حیات آباد کے بیس کیمپ سے پوری بیوروکریسی کو اتل پتھل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ عبوری حکومت ہے آج نہیں تو کل انتخابات تو ہونے ہی ہیں اس لیے انتظامی سیٹ اپ میں "اپنے لوگ” ہونا ضروری ہوتا ہے۔
پچھلے ہفتے خیبرپختونخوا بیوروکریسی کے کئی افسران سیکریٹریٹ کے چکر لگاتے رہے۔ ایک عجیب سا ماحول تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ بیورکریسی کی نئی ٹیم پر گورنر ہاؤس کے شدید تحفظات تھے۔گورنر خیبرپختونخوا اور نگران وزیر اعلیٰ نے نگران کابینہ کی طرح ایک فہرست مرتب کی۔ اس فہرست پر نئے چیف سیکرٹری نے "جو حکم میرے آقا” کہنے سے معذرت کر لی۔محکمہ خزانہ، محکمہ صحت، محکمہ داخلہ و قبائلی امور، محکمہ لوکل گورنمنٹ، محکمہ تعمیرات مواصلات، محکمہ آبپاشی، ڈپٹی کمشنر پشاور، ڈپٹی کمشنر سوات، ڈپٹی کمشنر خیبر، کمشنر ہزارہ اور کمشنر ملاکنڈ عہدوں کے تعیناتیوں پر بھی لے دے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ ذرائع کا ماننا ہے کہ صوبے کے انتظامی امور چلانے کے لیے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی جانب سے 600 سے زائد افسران کی فہرست تیار کی گئی تھی۔ وفاق کو بھی اس سے آگاہ کردیا گیا تھا۔اس کے بعد جمیعت علماء اسلام نے بھی مرکز میں رابطے تیز کر لیے ۔کہا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ کے قائدین گورنر کی جانب سے تیار کردہ فہرست پر ممکنہ مشترکہ مشاورت کرینگے اور پھرحتمی منظوری دینگے۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے اداروں نے تو لگتا ہے ہاتھ کھینچ لیے ہیں لیکن جمیعت علماء اسلام کی ایک ٹیم کو خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کے پوسٹ مارٹم پر لگا دینا چاہیئے ۔ بیورکریسی خصوصاََ جو لوگ تازہ تازہ "وائسرائے نظام” کے لیے امتحان پاس کرکے آئے ہیں ان کی اکثریت تحریک انصاف یا پھر یوں کہیے کہ عمران خان کی فین ہے۔ وائسرائے نظام کے تحت وہ دیگرجماعتوں کے لیے ہر وقت یس سر یس سر تو کرتے رہیں گے لیکن ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ سونامی یا بربادی کے کتنے چاہنے والے ہیں۔ دراصل مقابلے کے امتحانات میں بھی "پراجیکٹ عمران” کے لیے انتظامی قوت فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ اس لیے اس وقت جن ناموں پر وہ لڑ رہے ہیں یاد رکھیں یہی لوگ ان کے لیے وقت آنے پر مسائل کھڑے کریں گے۔ اس لیے اگر یہ معاملہ چیف سیکرٹری اور نگران وزیراعلی پر چھوڑا جائے جنہوں نے صوبہ چلانا ہے تو مناسب ہوگا۔ یہ ایک تجویز ہے باقی جو کچھ آپ کر رہے ہیں وہی کریں گے۔ ہر جگہ "اپنے بندوں” کی تعیناتی کا یہ عمل جاری رہے گا۔فی الوقت میرٹ کو تو بھول ہی جانا ہوگا۔
لیکن ایک سوال بہرحال رہ جاتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب تحریک انصاف کی ایک انتہا سے اس صوبے کو جمیعت علماء اسلام کی دوسری انتہا پر لے جایا جائے۔ ویسے اہم بات یہ بھی ہے کہ اس صوبے کی باقی جماعتیں جیسے عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی یا خود پی ڈی ایم کی جماعت مسلم لیگ ستو پی کر سو گئی ہیں؟

مزید پڑھیں:  آئی سی سی ویمنز ٹی 20ورلڈ کپ ٹرافی پاکستان پہنچ گئی