خیبر پختونخوا میں امن و امان

اے ایف پیرٹ سے لے کر اخترحیات خان تک

(آئی ایم بخاری) خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ماضی کی اگر بات کی جائے تو انگریزوں نے پائیدار امن کے لیے پنجاب فرنٹیئر فورس قائم کی۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد، ہندوستان میں کوئی منظم پولیس فورس نہیں تھی اور 1861ء کے پولیس ایکٹ کے تحت ایک مکمل پولیسنگ کا نظام قائم کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کو 1889ء میں سرحدی علاقوں تک بڑھا دیا گیا ۔ یہ پولیس ایکٹ آئرش کانسٹیبلری ایکٹ کے خطوط پر تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد بنیادی طور پر خطے میں برطانوی حکمرانی کومستحکم اور برقرار رکھنے کے لیے پولیس فورس بنانا تھا۔ 1901ء میں سرحدی علاقہ جات کو شمال مغربی سرحدی صوبہ(این ڈبلیوایف پی)قرار دے کر الگ صوبہ تشکیل دیا گیا اور اس کا انتظام سنبھالنے کے لیے چیف کمشنر مقرر کیا گیا جو ہندوستان کے گورنر جنرل کا ایجنٹ ہوا کرتا تھا۔ اس نئے صوبے میں، دو انتظامی نظام قائم کیے گئے۔ صوبے کے برطانوی علاقے کو پانچ سیٹلڈ اضلاع میں تقسیم کیا گیا، یعنی ہزارہ، پشاور، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان اور آباد اضلاع کے شمال اور مغرب میں واقع علاقوں کو پانچ ایجنسیوں میں تقسیم کیا گیا، یعنی خیبر، مہمند، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ۔ ہر ایجنسی پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت تھی۔ آباد اضلاع کے صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (IGP) کے ماتحت تھے۔ 1913 میں ایک نئی فورس فرنٹیئر کانسٹیبلری (FC) تشکیل دی گئی۔
1901 سے 1947ء تک تمام انسپکٹر جنرل برطانوی فوجی سول افسران تھے۔ 1947 ء میں آزادی کے بعد خان گل محمد خان 1948ء پہلے مقامی آئی جی پولیس بنے۔ 1955ء میں جب صوبہ سرحد ون یونٹ سسٹم کے تحت مغربی پاکستان کا حصہ بنا تو محمد انور علی آئی جی پی بنے۔ ایم اے کے چودھری ون یونٹ سسٹم کے خاتمے کے بعد 1970ء میں آئی جی پی سرحد تعینات ہوئے۔ 2010ء میں آئی جی پی ملک نوید خان تھے جب اے این پی اور پیپلز پارٹی پر مشتمل صوبے کی مخلوط حکومت کے دور میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھ دیا گیا۔قیام پاکستان سے قبل آئی جی پولیس برطانوی راج کے تحفظ اور امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے ۔آزادی کے بعد بد قسمتی سے یہ عہدہ زیادہ تر حکومتی زعما کے تحفظ کی ذمہ داری نبھاتا رہا۔ صوبے میں پہلا آئی جی اے ایف پیرٹ کو 1938 میں تعینات کیا تھا اور اب تک 30ویں آئی جی اختر حیات خان آئی جی خیبر پختونخوا کے طور پرفرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔
گذشتہ دس سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو 16 اپریل 2013 کو لیفٹننٹ کمانڈر احسان غنی کو آئی جی تعینات کیا گیا تاہم اس وقت کی حکومت ان سے مطمئن نہیں تھی اور صرف 5ماہ بعد ہی ناصر درانی کو آئی جی تعینات کردیا گیا ۔اس وقت اس فیصلے پر تنقید بھی ہوئی تاہم ناصر درانی کے اقدامات کی وجہ سے جہاں محکمہ پولیس کا وقار بلند ہوا وہیں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اس کا کریڈٹ لینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی اور ناصر درانی کی قیادت میں خیبر پختونخوا پولیس نے غیر سیاسی اور مثالی پولیس کا لقب بھی حاصل کیا اور 4 سال تک فورس کے سربراہ رہنے کے بعد ناصر درانی ریٹائرمنٹ لینے کے بعد باعزت طور پر رخصت ہوگئے ۔درانی صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد مختصر وقت کے لئے سید اختر علی شاہ کو قائم مقام آئی جی کے طور پر تعینات کیا گیا تاہم بعد ازاں 31مارچ 2017 کو صلاح الدین محسود جو سی ٹی ڈی میںرہتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرائض سرانجام دیتے رہے کو صوبے کی پولیس کا سربراہ تعینات کردیا گیا جس پر ان کے خلاف عدالتی جنگ شروع کردی گئی تاہم بعد ازاں اس لاحاصل جنگ کو جلد لپیٹ دیا گیا۔ صلاح الدین محسود بھی اپنے پیشرو کی طرح سیاسی قیادت کو سائیڈ پر رکھ کر صوبے میں امن اومان کی بحالی کے لئے اور قبائلی اضلاع کے انضمام کے لئے کوشاں رہے ۔اس دوران صوبے میں عام انتخابات کی وجہ سے 14 جون2018کو محمد طاہر کو آئی جی خیبر پختونخوا تعینات کیا گیا تاہم تین ماہ کے بعد دوبارہ صلاح الدین محسود کو آئی جی تعینات کردیا گیا۔صلاح الدین محسود کی دوسری مرتبہ پولیس فورس کے طور پر سربراہی کی وجہ صوبے کے امن و امان کے حوالے سے بحالی کی کاوشیں اور قبائلی علاقوں کا انضمام اور قبائلی علاقوں میں پولیس کا نظام قائم کرنا تھا تاہم سیاسی حکومت اور بیوروکریسی کو صلاح الدین محسود کی جانب سے ان کے احکامات کو پس پشت ڈالنے کی روش پسند نہ آئی اور پانچ ماہ بعد انہیں تبدیل کردیا گیا۔
صوبے کے اگلے آئی جی ڈاکٹر نعیم خان نے 11 فروری2019 کو عہدے کا چارج سنبھالا اور چارج سنبھالنے کے بعد حکومت اور بیوروکریسی تو ان سے مطمئن نظر آئی تاہم محکمہ پولیس میں عمومی طور پر جو اصلاحاتی پروگرام ناصر درانی کے وقت میں شروع ہوا تھا اس کے حوالے سے تحفظات پائے گئے اور ہر طبقہ میں ان کا موازنہ صلاح الدین محسود اور ناصر درانی سے کیا جاتا رہا ۔تقریباً گیارہ ماہ بعد ہی حکومت نے دوسرے آئی جی کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ۔اس بار قرعہ فال ڈاکٹر ثناء اللہ کے نام نکلا اور 3جنوری2020 کو ثناء اللہ عباسی کو صوبے کی پولیس فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا اور اسی دور میں مثالی پولیس کا خطاب جو پہلے فخر یہ انداز میں لیا جاتا تھا طنزیہ انداز میں تبدیل ہوگیا ۔اس عرصہ میں جہاں محکمہ پولیس ان سے ناخوش تھی وہیں صوبائی حکومتی حلقوں میں بھی انہیں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں تھی تاہم وفاقی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار تھے جس کی وجہ سے وہ ڈیڑھ سال تک صوبے کی پولیس کی سربراہی کا لطف اٹھاتے رہے ۔بعد ازاں پولیس کے گرتے ہوئے مورال کو بڑھانے کے لئے کمانڈنٹ فرنٹئیر کانسٹیبلری معظم جاہ انصاری کا انتخاب کیا گیا اور 11جون 2021 کو معظم جاہ انصاری فورس کے سربراہ منتخب ہوئے ۔واقفان حال کے مطابق معظم جاہ انصاری صاحب کی پیہم کوشش یہی تھی کہ سینئیر افسران کو ان کا حق دے کر اہم پوسٹوں پرتعینات کیا جائے لیکن انہیں اس سلسلے میں پوری کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور انہیں بھی کئی مرتبہ اپنا جاری کیا گیا آرڈر کینسل کرنا پڑا اور اس دوران دہشت گردی کے عفریت نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا۔جب صوبائی اسمبلی تحلیل کردی گئی تو ایک مرتبہ پھر آئی جی تبدیل ہونے کی افواہیں زوروں پر تھیں۔آخر کار پولیس لائیز پر حملے اوربڑی تعداد میں پولیس اہلکاروںکی شہادت کے سانحے کے چند روزبعدانہیں بھی تبدیل کر کے اختر حیات خان کو پولیس سربراہی سونپ دی گئی ۔

مزید پڑھیں:  پاکستانی فائٹر شاہ زیب رند نے ورلڈ کراٹے کمبیٹ چمپئن شپ جیت لی