اسمبلیوں کی تحلیل

کیا وزیر اعلیٰ بلا وجہ اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں، نئی بحث چھڑ گئی

ویب ڈیسک:سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اورخیبرپختونخوامیں سابق وزیراعظم کی ہدایات پر اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق اقدام زیر بحث آنے کے بعدنئے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں آئینی ماہرین کی رائے میں دونوں وزرائے اعلیٰ نے بلاوجہ اسمبلیوں کی تحلیل کی سفارش کی تھی جس کی آئین میں کوئی گنجائش موجود نہیں تھی آئین کے آرٹیکل 112کے تحت وزیراعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی سفارش گورنر کو ارسال کرنے کااختیارہے لیکن اس آرٹیکل کی ذیلی شق2کے تحت اس کیلئے وجوہات کا بیان کرنالازمی ہے
مثلا ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس میں صوبہ کی حکومت دستور کے مطابق نہیں چلائی جاسکتی ہے اور انتخاب کنندگان سے رائے چاہنا ضروری ہے یعنی اگر صوبہ میں صورتحال خراب ہو اور حکومت پرسے اعتماد ختم ہوگیاہو، تواس صورت میں اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کی جاسکتی ہے لیکن اس کے برعکس خیبر پختونخوا اورپنجاب میں حکومتیں دستور کے مطابق چل رہی تھیں اوراسمبلیوں کی تحلیل کیلئے کوئی ٹھوس وجوہات نہیں تھیں بلکہ یہ اسمبلیاں عمران خان کے حکم پر تحلیل ہوئیں اوراس وقت وہ ان دونوں اسمبلیوں کے ممبر نہیں تھے اورپارٹی چیئر مین کا آئین میں کوئی ذکر نہیں کہ ان کی سفارش پر وزرائے اعلیٰ اسمبلیاں تحلیل کرسکتے ہیں
ذرائع کے مطابق یہ ایک بنیادی سوال ہے کیونکہ آئین وزیراعلیٰ کو اختیار دیتا ہے تاہم یہ اختیارلامتناہی نہیں ہوسکتا مذکورہ کیس میں دونوں وزرائے اعلیٰ نے اسمبلیوں کی تحلیل کیلئے کوئی وجہ بیان نہیں کی تھی اورگورنر کو بھیجی گئی سمریزمیں صرف اسمبلی توڑنے کی سفارش کی تھی جو کہ ایک طرح سے حد سے تجاوز تھا اس لئے سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے سماعت میں ایک اہم نکتہ کی نشاندہی سے آئندہ دنوں کے دوران اس بارے میں مزیدوضاحت سامنے آئے گی جس سے سیاسی حالات میں ایک نیا موڑ آسکتاہے۔

مزید پڑھیں:  پشاور بھتہ خوری میں سر فہرست، وارداتوں میں افغانستان کے فون کالز کا استعمال