لاہور ہائی کورٹ کے پے در پے ”سٹے آردڑز” نے چینی کا بحران پیدا کیا

ویب ڈیسک:پنجاب حکومت کو پیش کی گئی خفیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ چینی مہنگی ہونے کی وجہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناعی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور جسٹس انور حسین کے 4مئی 2023ء اور یکم اگست 2023ء کے چینی کی قیمتوں کے معاملے پر جاری کردہ حکم امتناعی نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی راہ ہموار کی ہے۔
دستاویز کے مطابق فیصلے سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے محکمہ خوراک نے کابینہ کے لئے سمری پیش کی اور صوبائی کابینہ نے پنجاب فوڈ سٹفز(شوگر)آرڈر کے ذریعے چینی کے تعین کے اختیارات کین کمشنر پنجاب کو تفویض کئے تھے۔ کین کمشنر نے ایکس مل قیمت کے تعین کا عمل شروع کیا، تاہم لاہور ہائی کورٹ کے ایک اور جج جسٹس انور حسین نے یکم اگست 2023 کو قیمتوں کے تعین کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا۔ 4 مئی 2023 ء کو لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے اس اعتراض پر کہ قیمتوں کے تعین کا موضوع صوبائی ہے۔ اگلی تاریخ 20 ستمبر 2023ء مقرر کی۔
اس طرح کسی نہ کسی بہانے اسٹے آرڈر کی تاریخوں میں توسیع کی جارہی ہے اور شوگر ملز اور سٹہ باز ایک سو روپے فی کلو قیمت وصول کر رہے ہیں۔ آج تک شوگر ملوں کے ذریعے تقریباً 1.4 ملین میٹرک ٹن چینی اوسطاً 40 روپے فی کلو اضافی کے حساب سے فروخت کی جا چکی ہے۔ شوگر ملز، بروکرز، ڈیلرز اور قیاس آرائیوں نے اس طرح ایک کروڑ روپے کی خورد برد کی۔ 55 سے 56 ارب کی اضافی رقم صرف سٹے آرڈرز کی وجہ سے حاصل کی گئی۔ جسٹس شاہد کریم نے چینی کی سپلائی چین کی نگرانی کے خلاف حکم امتناعی بھی جاری کیا۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی حکام چینی کی نقل و حرکت اور بلوچستان کے راستے افغانستان میں اس کی سمگلنگ کو روکنے سے قاصر ہیں۔
ایم ٹی چینی باہر اسمگل کی گئی ہے۔ اس سمگلنگ نے ملک اور بالخصوص پنجاب میں چینی کے سٹریٹیجک ذخائر کو ختم کر دیا ہے۔ یہ ذخائر آنے والے سال میں چینی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق شوگر ملز کے تمام کیس جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں چلائے جاتے ہیں۔ تمام کیسز میں شوگر ملوں کے حق میں اور عام لوگوں اور کسانوں کے خلاف فیصلے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میںکہاگیا ہے کہ حکم امتناعی کو جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ملک اور صوبہ مزید بحرانوں میں ڈوب جائے گا۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے باوجود 17اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں