خیبر پختونخوا میں رہے سہے جنگلات کا وجود بھی خطرہ میں پڑ گیا

ویب ڈیسک: سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے بعد اب ہزارہ ڈویژن کے جنگلات کا صفایا کرنے کے لئے بھی کمر کس لی گئی ہے اورجنگلات ، موسمیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے محکمے نے ہزارہ ڈویژن میں کمال بان، ملکانڈی اور ایوبیہ نیشنل پارکس کو بطور نیشنل پارک ڈی نوٹیفائی کرنے کی سفارش کردی ہے جس کے بعد نہ صرف ان تینوں نیشنل پارکس کے جنگلات کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ نتھیا گلی سمیت گلیات کے مختلف حصوں اور ہزارہ ڈویژن کے دیگر مقامات پربے ہنگم تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا اور قدرتی جنگلات کی جگہ کنکریٹ کے جنگل اگا لئے جائیں گے
جس سے علاقے کا پورا ایکو سسٹم تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ہزارہ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں اب بھی محکمہ جنگلات کے عملہ کی ملی بھگت سے درختوں کی غیرقانونی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب ٹمبر مافیا کے ساتھ ساتھ لینڈ مافیا بھی سرگرم ہو گیا ہے اور انہوں نے ان پر فضاء مقامات پر اپنی نظریں جما لی ہیں ۔لینڈ مافیا کی ایک عرصہ سے کوشش ہے کہ گلیات کو حاصل ”نیشنل پارک” کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہو جائے تاکہ وہ وہاں بھی پلاٹ بنا کر بیچ دیں اور یہاں خوبصورت جنگلات کی جگہ سٹیل اور کنکریٹ کا بے ہنگم جنگل اگا لیا جائے اس سلسلے میں محکمہ جنگلات نے تین نیشنل پارکس کی حیثیت کے خاتمے کے لئے سمری تیار کرلی ہے جو منظوری کے لئے کابینہ کو بھجوادی ہے ۔
سمری میں تینوں نیشنل پارکس کی حیثیت کا خاتمے کی سفارش کرتے ہوئے صوبائی کابینہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا ان قیمتی جنگلات کا وجوداس دھرتی پر ایک بوجھ ہے برطانوی دور سے لے کر موجودہ دور تک کے احوال کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان تینوں جنگلوں کو نیشنل پارک قرار دینے سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر ان تینوں کو ڈی نوٹیفائی کردیا جائے تو اس سے مقامی آبادی کو لکڑی بھی میسر آئے گی جبکہ لکڑیاں بیچ کر غریب صوبے کو بھی مالی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے تاہم ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ گلیات اور ہزارہ ڈویژن کے دیگر علاقوں کی خوبصورتی جنگلات کی وجہ سے برقرار ہے ،صوبے میں اس سے قبل ”ونڈ فال” اور دیگر ناموں پر جو پالیسیاں بنائی گئیں اس کی آڑ میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی اور کئی علاقوں کے سرسبز و شاداب پہاڑوں پر اب درخت نام کی کسی چیز کا نام و نشان تک نہیں رہا جبکہ مذکورہ نیشنل پارکس کا سٹیٹس ختم کئے جانے کے بعد ہزارہ کے جنگلات بھی ٹمبر مافیا کے دست برد سے محفوظ نہیں رہیں گے اور صوبے سے جنگلات کا صفایا ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں:  مہمند میں پولیو کیس، ڈی ایچ او اور پولیو کوآرڈینیٹر معطل