جوابی خط

آپ کے خط سے مایوسی ہوئی‘ چیف جسٹس کا جسٹس اعجاز الاحسن کو جوابی خط

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجاز الاحسن کے لکھے گئے خط پر جواب میں کہا ہے کہ مجھے آپ کا خط موصول ہوا جس پر بہت مایوسی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے جسٹس اعجاز الاحسن کو اپنے جوابی خط میں لکھا کہ آپ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ورکنگ پر تحفظات کا اظہار کیا، آپکا الزام ہے کہ بنچز کی تشکیل سے قبل مشاورت نہیں کی گئی جبکہ میرے دروازے سپریم کورٹ کے تمام ججز کیلئے کھلے ہیں، آپ نے اپنے تحفظات کیلئے نہ تو مجھ سے انٹر کام کے ذریعے بات کی نہ مجھ سے رابطہ کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ آپ کا خط موصول ہونے پر میں نے فوری آپ سے انٹر کام پر رابطہ کیا لیکن جواب نہ ملا، میری ہدایت پر اسٹاف نے آپ کے آفس سے رابطہ کیا تو بتایا گیا آپ جمعہ کے روز لاہور کیلئے نکل چکے ہیں، آپ ورکنگ ڈے پورا کیے بغیر لاہور گئے، ہمیں چھ دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے،ہمیں چار دن اور ایک آدھے دن کی تنخواہ نہیں ملتی۔
چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ ایک جج کی اولین ذمہ داری عدالتی امور کی انجام دہی ہے‘کمیٹی میٹنگ کو ری شیڈول کرنا میری غلطی تھی، اگر مشاورت کے عمل کو نہ کرنا تو کیا حکم امتناعی کے باوجود آپ اور جسٹس سردار طارق سے مشاورت اپنے اوپر لازم کرتا، آپکو یاد دلاتا چلوں میں جب اٹھارہ ستمبر کو چیف جسٹس پاکستان بنا تو پہلے آرڈر میں آپ سے اور جسٹس سردار طارق مسعود سے مشاورت کی۔
خط میں چیف جسٹس نے لکھا کہ ’سردیوں کی چھٹیوں می میں دو بنچز تشکیل دیے گئے،میں آپ (جسٹس اعجاز الاحسن) کو یاد دلاتا چلوں ایک بنچ میں آپکے ساتھ جسٹس مظاہر تھے، آپ نے کہا جسٹس مظاہر نقوی کا کیس کونسل میں ہے، میں ان کے ساتھ بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہتا، بنچز کی تشکیل سے عیاں ہے تمام ججز کیساتھ مساوی برتاؤ کیا جا رہا ہے، آپ کے الزامات حقائق اور ریکارڈ کے منافی ہیں،اگر آپکی تجاویز ہیں تو تحریری صورت میں دیں تاکہ کا جائزہ لیا جاسکے۔

مزید پڑھیں:  سعودی عرب میں نامناسب لباس کا فیشن شو ،سوشل میڈیاپر تنقید