ججزخطوط پر ازخود نوٹس، ہمیں‌عدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خطوط کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی۔
ذرائع کے مطابق ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
یاد رہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں بنچ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فاءز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے، عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں گفتگو کرنی ہے وہ چلا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، مگر ہم اس عدالت کی آزادی یقینی بنائیں گے، اندر اور باہر سے حملہ نہیں ہونا چاہیے۔
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور اعوان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سفارشات دیکھی ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں نے ہائیکورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دریافت کیا کہ اب اس معاملے کو کیسے آگے چلائیں؟۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائیکورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ اس معاملے کو حل کریں اندرونی دباؤ ہو یا بیرونی دباو ہو ہمیں اسے دور کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہائیکورٹس اورعدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، ہمارے پاس اس سے متعلق سنہری موقع ہے اور ہمیں کوئی مخصوص طریقہ کاربنانا ہے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک نظام بنانا ہوگا جس سے مداخلت کا دروازہ بند ہو جائے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذکر سے روکتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ فورم ہے اسے تجاویز دینی ہیں تو الگ دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم کونسل کے فیصلوں کو ختم بھی کرتے ہیں ان میں ترمیم بھی کرتے ہیں، ہم اہم معاملے پر ایگزیکٹو کو ایڈوائس دے سکتے ہیں.
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس سب کچھ کے باوجود ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی سب کریں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے. چیف جسٹس نے بتایا کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا، معلوم ہے کتنی مداخلت ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔
ذرائع کے مطابق اکبر الہ آبادی کے شعر کہ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام۔ پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ یہی جسٹس بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کچھ لوگ خاموشی سے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ اب ختم ہو چکے ہیں، ججز کی تعیناتی کیلئے جب ہم خفیہ اداروں سے رپورٹیں منگواتے ہیں تو ہم ان کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں، جب آپ مانیٹرنگ جج لگوائیں گے، جب جے آئی ٹیز میں ان کو شامل کریں گے تو ان کو مداخلت کا موقع ملے گا، کچھ لوگ ذاتی مفادات کیلئے آئینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائیکورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے، وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں نے تصدیق کی ہے کہ ججز کے مس کنڈکٹ کی بات پریس کانفرنس میں نہیں ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سے تجاویز مانگ لیتے ہیں، کوئی اور فریق رائے دینا چاہے تو دے سکتا ہے، ہم اس معاملے کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے خط پر تحریری جوابات دے دیتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن لوگوں نے درخواستیں دائر کی ہیں خود اس پر فیصلہ کر لیں، سب فریقین کو سننا مشکل ہو جائے گا، تحریری معروضات دے دیں۔
اس پر وکیل لاہور ہائیکورٹ بار حامد خان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کو فل کورٹ تشکیل دینی چاہیے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیں:  اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تعیناتی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر