افسوسناک واقعہ اور ردعمل

یہ امر بالکل واضح نہیں کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور یہ الزام کیوں لگا جب تک اس بارے میں مکمل تحقیقات کے بعد حقیقت سامنے نہیں آتی اس وقت تک اس حوالے سے کوئی رائے دینا مناسب نہیں اس طرح کے حساس معاملات میں ذمہ دارانہ کردار اور محتاط طرزعمل کا مظاہرہ ہی مناسب ہوگا۔ صرف یہ اطلاعات بہرحال مصدقہ ہیں کہ سوات کے علاقہ مدین میں قرآن مجید کی بے حرمتی کامبینہ واقعہ پیش آیا ہے پنجاب سے آنے والے سیاح نے ہوٹل میں اس طرح کی قبیح حرکت کا ارتکاب کیسے اور کیوں کیا جب تک اس حوالے سے حکام کی جانب تحقیقات کے بعد کوئی موقف سامنے نہیں آتا اسے من و عن تسلیم کرنے یا پھر اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار ہر دو امر موزوں نہیں اس مبینہ واقعے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس حوالے سے اس امر کے اظہار کی گنجائش ضرور ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے مبینہ واقعات کی تحقیقات کے بعد سامنے آنے والے حقائق مختلف ثابت ہوتے رہے ہیں اور کم ہی الزام با ثبوت طور پر ثابت ہواہو۔ بہرحال اس سے قطع نظر یہ مبینہ واقعہ نہایت دل آزار اوغم و اندوہ کا باعث ہے جس پر اشتعال بھی فطری امر ہے لیکن بطور مسلمان جنگ کے میدان سے لے کر جذبات کی رو میں بہہ جانے والے واقعات تک دین کی تعلیم سنت کا طریقہ اور علمائے کرام کی رہنمائی سے ہمیں جو طرز عمل اختیار کرنے کا درست ملتا ہے اس کا تقاضا یہ بیان کیا جاتاہے کہ خواہ کس قدر بھی حساس اور قابل صد مذمت واقعہ ہو ہجوم کو از خود فیصلہ کرنے کا ہر گز ہر گز اختیار حاصل نہیں بلکہ اس کا اختیار حکومت اور قاضی کو ہے کہ وہ الزام کی تحقیقات اور جرم ثابت ہونے پر اس کی نوعیت کے مطابق شریعت اور قانون کے مطابق سزا دے دوسرے کسی کویہ اختیار حاصل نہیں دین اسلام اور شریعت اس امر کا متقاضی ہے کہ اس طریقہ کار اور ان ہدایات کی سختی سے پیروی کی جائے جس کی تعلیم دی گئی ہے اور سنت مبارکہ سے ثابت ہے کوئی بھی کام اصول دین اور سنت کے مطابق نہ ہو خواہ جس بھی جذبے سے کی جائے مقبول نہیں محولہ قسم کے بار بار کے واقعات کے ردعمل کو ہر بار ہمارے ہی خلاف استعمال کیاگیا وقتی جذبات کامظاہرہ کرنے والوں کے طرزعمل کی علمائے کرام بھی حمایت نہیںکرتے بلکہ اس کی گنجائش نہ ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق رہا ہے اس طرح کے موقع پر جذبات پردین مبین کے اصولوں اور شریعت کومقدم رکھنا اور ان کے رہنما اصولوں کو اپنانا ہی عین ایمان اور دین کی پیروی ہے اس واقعے کی جامع تحقیقات اور اس کے پس پردہ حقائق کو سامنے لانا حکومت کی ذمہ داری ہے اس کے بعد ہی قانونی راستہ اختیار کیاجائے گا جو واقعہ رونماہوا ہے اس کی تہہ تک جانا اور مختلف عوامل اور امکانات کے جائزے کے بعد مفصل نتیجہ اخذ کرنا اور آئندہ کے لئے اس طرح کے واقعات اور غلط فہمیوں کی روک تھام اور تدارک کے لئے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی رہنمائی اور تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی غلط فہمی کا امکان کم سے کم کیا جائے اور خدانخواستہ کوئی بدبخت کسی فعل کا ارتکاب کرے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچاناحکومت وقت کا اختیار اور ذمہ داری ہے جس میں ذرا سی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  سکینڈل کی تحقیقات کادائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت