عوام کی مشکلات کا بھی کسی کو خیال ہے؟

پشاور کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کی جانب سے مسلسل تین روز سے زبردستی فیڈرز آن کرنے سے رحمن بابا گرڈ سٹیشن کا نظام بیٹھ گیا تکنیکی فالٹ کی وجہ سے گرڈ سٹیشن سے 32فیڈرز کے صارفین کو بجلی فراہمی منقطع ہوگئی زبردستی فیڈرز چالو کرانے سے سسٹم اوورلوڈ ہوا اور فا لٹ کی وجہ سے بجلی کی ترسیل معطل ہوگئی کمپنی ترجمان کے مطابق پیسکو ٹیم نے مرمتی کام شروع کردیا ہے تاہم بجلی بحالی کیلئے کئی گھنٹے درکار ہوںگے مظاہرین کی جانب سے مسلسل عمل دخل سے صارفین کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے رحمن بابا گرڈ سٹیشن سے 32فیڈرز کو بجلی فراہمی کی جاتی ہے جو مکمل طور پر معطل ہے۔کسی محکمے کو زبردستی کام پر مجبور کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی کتنی گنجائش ہے اور صوبائی و مرکزی حکومت کی چپقلش میں ہر دو جانب سے عوام کے ساتھ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں بجلی کا بٹن تلاش کرنے اور بٹن بند کرنے کی دھمکی کا نتیجہ کیا نکلے گا او زبردستی گرڈ چلانے کے نتائج کیا ہوں گے جذباتی انداز اختیار کرنے سے قبل اگر اس پرغور کرنے کی زحمت کی جاتی تو یہ نوبت نہ آتی اور نہ ہی نظام میں مداخلت بے جا کو وجہ قرار دے کر تکنیکی مسائل کا حیلہ تراش کر بجلی کی بندش مزید طویل کرنے کا قابل اعتراض حربہ اختیار کیا جاتا البتہ دوسری جانب تنگ آمد بجنگ آمد کا طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور کیا جانا بھی صرف نظر کرنے کا باعث عمل نہیں بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے اتفاق کرنے کے باوجود بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ آخر کہاںتک برداشت کی جائے اس پر صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا عوام کا غم غلط کرنے کے لئے بھی کچھ دکھاوا نہ کیاجائے تو پھر عوام کے اشتعال کو روکنا بس سے باہر ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے بہرحال باہمی چپقلش اور اقدامات و ردعمل کا معاملہ ایک طرف اس وقت مسئلہ تکنیکی ہے یا نہیں مگراسے تکنیکی بنانے کی آڑ میں عوام کو جن مشکلات سے دو چار کیا جارہا ہے وہ ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ہے جس کا حل صوبائی او ر وفاقی حکومت کے نمائندوں میں رابطہ اور عوامی مشکلات کا احساس ہے فوری حل بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شیڈول پر عملدرآمد ہے گو کہ یہ بھی کم عذاب نہیں لیکن اگراس پر صوبائی حکومت رضا مندی کا اظہار کر رہی ہے تو کم از کم اس شیڈول ہی کی پابندی کی جائے ۔تکنیکی خرابی کو جتنا جلد ممکن ہوسکے دو رکیا جائے اور اس کی آڑ میں عوام کو مبتلائے عذاب نہ رکھا جائے ۔

مزید پڑھیں:  خودی کی تلاش میں