محرم الحرام۔۔ احتیاطی تدابیر

ایک جانب آپریشن عزم استحکام کے نفاذ کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں بطور خاص سیاسی جماعتوں کے اندر تشویش کی لہریں دوڑ رہی ہیں اور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں کے رہنماء اس آپریشن کے خلاف بیانات دے رہے ہیں ، تو دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بڑا آپریشن نہیں ہوگا بلکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی ، اور وفاقی کابینہ سے آپریشن عزم استحکام کی منظوری ملنے کے بعد وزیر اعظم نے پہلے سے جاری انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بڑا آپریشن نہیں ہوگا بلکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی ، اور وفاقی کابینہ سے آپریشن عزم استحکام کی منظوری ملنے کے بعد وزیر اعظم نے پہلے سے جاری انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایات دے دی ہیں جبکہ محرم الحرام کے دوران حساس اضلاع میں خیبر پختونخوا کی وزارت داخلہ نے آرمی اور فرنٹیئرکور سے نفری کی تعیناتی کی درخواست کرکے غلط فہمیوں میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے خدشات کو بھی رد کر دیا ہے اس سارے پس منظر میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے تازہ بیان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ”عزم استحکام آپریشن کی زیادہ تر کارروائیاںپختونخوا اور بلوچستان میں ہوںگی ، آپریشن کا آغازدہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں سے ہو گا ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کی تشویش دور کریں گے علی امین گنڈا پور نے کوئی اختلاف نہیں کیا، دبے الفاظ میں حمایت کی”۔ اگروفاقی وزارت داخلہ کے انچارج وزیر کے بیان اور خیبر پختونخوا کی محکمہ داخلہ کی جانب سے محرم الحرام کی حساسیت کے حوالے سے حساس اضلاع میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کی درخواست پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صوبائی محکمہ داخلہ کی درخواست بے معنی نہیں ہے بلکہ محکمے کو ملنے والی انٹیلی جنس معلومات کی بناء پر ہی ایسی صورتحال سامنے آرہی ہے ، اس حوالے سے گزرے سالوں کے دوران محرم الحرام کے دنوں میں جس قسم کی تخریب کاری واقعات نے خاص طور پر صوبائی دارالحکومت پشاور کو جس طرح غم و اندوہ کا شکار بناتے ہوئے اہالیان شہر کوآٹھ آٹھ آنسوبہانے اور اپنے پیاروں کے لاشے اٹھانے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف ا علیٰ سکیورٹی حکام ، اہم سیاسی رہنما اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنایا گیا ، وہ ابھی تک اہل پشاور کی یادوں میں تازہ ہیں اور ان کی زخموں پر نمک پاشی کا باعث ہیں اس ضمن میں خاص طور پر اے این پی کے اہم رہنمائوں کوجس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اس کے باوجود اگر یہ سیاسی جماعت دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی مخالفت کر رہی ہے تو اس پر تعجب کا اظہارکئے بناء نہیں رہا جا سکتا ، ہماری دانست میں تو دہشت گردی کی حمایت کسی بھی طور نہیں کی جا سکتی ، اور اب جب کہ محرم الحرام کے آغاز میں کم و بیش نو یا دس روز رہ گئے ہیں اور صوبائی حکومت کے علاوہ پشاو ر کی ضلعی انتظامیہ نے پشاور میں بطور خاص یکم محرم سے بڑے بازاراورمارکیٹیں تک بند کرنے کا عندیہ دیا ہے (جس پر الگ سے بحث کی جا سکتی ہے ) اور دیگر حساس اضلاع میں بھی سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پولیس فورس کے ساتھ فوجی اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کی حکمت عملی طے کر دی ہے تو اس کے پیچھے موجود عوامل کے بارے میں متعلقہ حکومتی ادارے ہی بہتر جانتے ہوں گے ، ایسی صورت میں عوام کو جو مشکلات درپیش ہوں گی ، انہیں حمل و نقل میں دشواریاں سامنے آئیں گی ، اس کے علاوہ بھی اس قسم کے فیصلوں کے جو مثبت اور منفی نتائج برآمد ہوں گے ، ان سے قطع نظر انسانی جانوں کی حفاظت اور ممکنہ دہشت گردانہ واقعات کی روک تھام ضروری ہے ، بدقسمتی سے دہشت گرد گزشتہ کئی سال سے نہ صرف محرم بلکہ دیگر مذہبی اجتماعات کونشانہ بناتے ہوئے ہرگز نہیں سوچتے کہ مذہبی اور دینی اجتماعات کے مواقع پروہ کیوں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں ، اس موقع پرہم اسلامی تعلیمات کو دوہرا کر جن میں ایک مسلمان تو کیا ، کسی عام انسان کو بے گناہ مارنے کے حوالے سے پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیاگیا ہے، صرف ان لوگوں سے گزارش کریں گے جو دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسی پرمعترض ہیں کہ وہ ٹھنڈے دل سے تمام صورتحال پر غور کرکے کسی نکتہ نظر پر اتفاق رائے پیدا کریں۔

مزید پڑھیں:  گرم تعاقب کی دھمکی