عوام کْش”تاریخ ساز”وفاقی بجٹ

عوام اور مختلف الخیال اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے باوجود عامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ہدایات پر بنایا گیا سال 2024ـ25ء کیلئے وفاقی بجٹ گزشتہ روز کثرات رائے سے قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا۔ اپوزیشن کی بجٹ کے حوالے سے تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ بجٹ پر بحث کے دوران قومی اسمبلی میں انقلابی تقاریر کرنے والے بعض ارکان قومی اسمبلی کی پارٹی ، پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی بجٹ کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دیا۔ کتابوں، نیوز پرنٹ اور امراض قلب کیلئے سرجیکل آلات پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھنے کے ساتھ سٹیشنری پر 10فیصد سیلز ٹیکس نافذ کردیا گیا۔ منظور کئے جانے والے وفاقی بجٹ میں مزید 200 ارب روپے کے ٹیکسوں کی بھی منظوری دی گئی۔ ابتدائی تخمینہ کے مطابق حکومت جائیدادوں کی خریدوفروخت سے 20ارب، سیمنٹ کی فروخت سے 80 ارب اور فضائی سفر پر لگائے گئے ٹیکس سے 55ارب کی اضافی رقم وصول کرے گی۔ یکم جولائی سے ادویات، بعض ضروری اشیاء سمیت سینکڑوں چیزیں اضافی ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ بجٹ کی منظوری سے ایک دن قبل خود وزیراعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ بجٹ بنانے میں آئی ایم ایف کی مشاورت شامل تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس اعتراف میں وزیراعظم نے ”کسر نفی” سے کام لیا وہ اگر صاف سیدھے لفظوں میں یہ اعتراف بھی کرلیتے کے بجٹ آئی ایم ایف کے ماہرین کی نگرانی میں ان کی ہدایات کے مطابق تیار ہوا تو بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑنا تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ رواں ماہ کے دوران تین بار بجلی کی قیمت بڑھائی گئی 28 جون کو بجلی کی قیمت میں مزید 3 روپے 41 پیسے فی یونٹ اضافے کیلئے درخواست کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نیپرا ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 3 روپے 41 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری پر آمادہ ہے، فیصلہ سنانے کی بجائے فیصلہ محفوظ کرنے کی وجہ فقط یہی تھی کہ 28 جون کو ہی قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہونا تھا۔ حکومت نے نہ صرف بجٹ کے نام پر شہریوں کے گلے میں پڑا شکنجہ مزید سخت کردیا بلکہ ایف بی آر کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے ماضی کے کالے قوانین کی یاد تازہ کردی ہے۔ صوبوں سے اتفاق رائے حاصل کئے بغیر جائیدادوں کی خریدوفروخت پر عائد کی جانے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے آنے والے دنوں میں جو مسائل پیدا ہوں گے اس کا غالباً ”بجٹ سازوں” کو اندزہ نہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پٹرولیم لیوی 10 روپے فی لیٹر مزید بڑھادی گئی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایسا عوام کْش بجٹ منظور ہوا ہے جو آنے و الے دنوں میں غربت و بیروزگاری کے ساتھ چند دوسرے مسائل میں اضافے کا سبب بنے گا۔ بیروزگاری اور غربت میں اضافے سے عام نوعیت کے سٹریٹ کرائم بڑھ جائیں گے۔ بجلی اور سوئی گیس کی قیمتوں میں پی ڈی ایم کی 16 ماہ والی حکومت اور پھر نگران حکومت کے دور میں ہوئے ظالمانہ اضافوں کے بوجھ تلے سسکتے شہریوں پر فروری میں برسراقتدار آنے والی اتحادی حکومت نے جو مظالم توڑے ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے وفاقی اور صوبائی بجٹوں میں جو کم سے کم ماہانہ اجرت مقرر کی جاتی ہے اس کے نفاذ پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی البتہ ایک مثال ایسی بہرطور موجود ہے جس سے اشرافیہ کے مفادات کے ساتھ ان کے محافظوں کا چہرہ عوام کے سامنے اس وقت بے نقاب ہوا جب سندھ حکومت کی مقرر کردہ کم سے اجرت کے خلاف سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دے دیا تھا۔ اشرافیہ (سرمایہ داروں)اور حکم امتناعی دینے والوں میں سے کسی کو احساس ہی نہیں ہواکہ بدترین مہنگائی اور دوسرے مسائل سے دوچار عام شہری کو اگر کم سے کم مقرر شدہ اجرت نہ ملی تو کیا ہوگا ،ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وفاقی بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کی ہدایات پر من و عن عمل کیا گیا بیرون ملک سے منگوائے گئے وفاقی وزیر خزانے سے تو کیا شکوہ کرنا؟ وفاقی کابینہ کے بھی کسی رکن سے اپنے عصری شعور کی روشنی میں لب کشائی نہیں کی، اس پر ستم یہ کہ عوام دوست سیاست کی علمبردار پاکستان پیپلزپارٹی جس کے اساسی نظریہ میں شامل تین نکات میں ایک یہ ہے کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں” نے بھی چند آئینی عہدوں پر عوام دوست سیاست کو قربان کردیا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ روز اپوزیشن کے جو ارکان ایوان میں اودھم مچارہے تھے جب ان کی جماعت (پی ٹی آئی) اقتدار میں تھی تو ان سے بھی ساڑھے تین برسوں کے دوران ایک بھی عوام دوست بجٹ نہیں بن پایا ،بہرطور ماضی پر ہائے وائے کرنے کی بجائے اس عوام کش بجٹ پر نقدونظر ازحد ضروری ہے جس کے اطلاق سے قبل ہی منافع خوروں کی بن آئی۔ مثلاً ادویات اور چند دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بجٹ پیش کئے جانے کے ساتھ ہی اضافہ کردیا گیا اور کسی نے اس لوٹ مار کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ شوگر، ادویات، سیمنٹ اور کھاد بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان پارلیمان کے ایوان میں دونوں طرف (حکومت اور اپوزیشن) میں موجود ہوتے ہیں اور وہ اس لوٹ مار کی پردہ پوشی میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں جس کی قیمت عوام کو چکانا پڑتی ہے۔ وفاقی بجٹ میں دفاع کیلئے رکھی گئی رقم پر بھی انگنت سوالات اٹھائے گئے مگر وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے کسی ذمہ دار نے ان سوالات کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ اس امر کی جانب توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے خاک ہوئے۔ آٹا، چینی، دالوں، گھی، دودھ دہی، مٹن اور بیف گوشت سمیت مجموعی طور پر 24 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے۔ حکومت کے دعوے کے برعکس ایل پی جی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ یہ بجا ہے کہ صحت اور تعلیم 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی شعبے ہیں لیکن ہر دو مدوں میں وفاقی بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم کے اعدادوشمار پر بجٹ بنانے والوں کو بھی کوئی حیرت ہوئی نہ شرمندگی۔ دعوئوں اور وعدوں کے برعکس اتحادی حکومت جو بجٹ لائی اس میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں ماسوائے یوٹیلٹی بلوں میں ظالمانہ اضافے اور بدترین مہنگائی کی نئی لہر ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہمیشہ قدم قدم پر درست ثابت ہوتا ہے کہ انہیں ہم وطنوں سے زیادہ عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اندریں حالات یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ عوام کو درپیش مسائل مزید گھمبیر ہوں گے۔ فقط یہی نہیں حکومت و ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی خلیج بھی مزید وسیع ہوگی۔

مزید پڑھیں:  پشاور میں آتشزدگی کا واقعہ