فیٹف یا امریکہ کا” کلائی مروڑ” پروگرام؟

فرانس کے دارلحکومت پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ اس بار صرف پاکستان ہی نہیں متحدہ عرب امارات کو بھی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے اجلاس میںترکی کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ترکی اور پاکستان اس وقت عالمی سیاست میں جس مقام اور مدار پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہ مغربی بلاک کو پسند نہیں ۔اس لئے پاکستان کی طرح ترکی کی معیشت بھی شدید مشکلات کا شکار ہے ۔اس فیصلے پر بھارت سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خوشی کے شادیانے بج اُٹھنا فطری ہے مگر پاکستان نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ پچھلی بار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ اب یہ طے کرنا ہوگا کہ فیٹف تکنیکی فورم ہے یا سیاسی۔گویا کہ انہوںنے پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھنے کے فیصلے کو سراسر سیاسی قراردیا تھا۔کچھ یہی بات دوسرے لفظوں میں مشیر خزانہ شوکت ترین نے ایک انٹرویو میں بھی یوں کی تھی کہ فیٹف شرائط میں کوئی اور چیز نہیں بچی کوئی اور ملک ہوتا تو گرے لسٹ سے نکل آیا ہوتا مگر ہم علاقائی سیاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ شوکت ترین کی اس بات کا مطلب واضح تھا کہ علاقے کی چین مخالف اور حمایت تقسیم کی زد پاکستان پر پڑرہی ہے ۔چین مخالف مغربی بلاک جو علاقائی سطح پر بھارت کے ساتھ اتحاد کر چکا ہے۔یہ اتحادی مل کر ہر محاذ پر پاکستان کی کلائی مروڑنے کی ہر کوشش کر ر ہے ہیں ۔ایف اے ٹی ایف کے حکام نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ پاکستان نے ستائیس میں سے چھبیس نکات پر کامیابی سے عمل کیا ہے اور یہ بات کئی اجلاسوں میں تسلیم کی جاتی رہی ہے اور اس بار بھی ایف ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کی تعریف کی گئی مگر ساتھ ہی جون تک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ بھی سنادیا ۔اسی کارکردگی کی بنیاد پر پاکستانی حکام کوکچھ عرصہ پہلے تک گرے لسٹ سے وائٹ میں آنے کی قوی امید تھی مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا اگر فیصلہ تکنیکی اور حقیقی بنیاد پر کیا جاتا، چونکہ معاملہ سیاسی ہے اس لئے پاکستان موجودہ حالات میں فیٹف کے ہدف سے آگے بڑھ کر بھی کام کرتا، تب بھی گرے لسٹ سے نکلنے کا امکان نہیں تھا ۔ یوکرین تنازعے میں پاکستان کی آزادانہ روش ، وزیر اعظم عمران خان کے ماسکو اور بیجنگ کے دورے ،”ہرگز نہیں ” کا ٹکا سا جواب ،غریب ملکوں کی ناجائز دولت کے اپنے ہاں بہائو اور اتکاز پر مغربی ملکوں پر تنقید اور جنگوں کی بجائے صرف امن کا ساتھی اور شراکت دار رہنے پر اصرار ایسے معاملات تھے جن کے بعد تو بہت سے لوگ یہ خدشات محسوس کرنے لگے تھے کہ پاکستان کو کہیں بلیک لسٹ ہی نہ کر دیا جائے ۔امریکہ کے بگڑے ہوئے تیور بھی یہی بتا رہے تھے۔یہ تو پاکستان نے نہایت سرعت کے ساتھ فیٹف کے تمام مطالبات پر عمل درآمد کرلیا تھا کہ اب ان کے پاس یہ برہنہ فیصلہ کرنے کا جوازہی نہیں تھا ۔روس کے دورے کے بعداینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کے نام پر55ملین ڈالرکا جرمانہ عائد کیا گیا ۔کچھ عجب نہیں کہ عالمی عدالت انصاف سے بھی کلبھوشن یادیو کی رہائی کے لئے کوئی پروانہ آجائے اور آئی ایم ایف تو پہلے ہی پاکستانی عوام کی چیخیں نکال رہاہے ۔امریکہ ہر انداز سے ہر عالمی فورم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔بین الاقوامی اداروں کے سیاسی استعمال سے ان اداروں کو بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ اب فیٹف نے پاکستان کو ڈومور کے انداز میں پاکستان کو مزیدکچھ نکات کی فہرست تھمادی ہے ۔گویا کہ پاکستان کا گرے لسٹ میں لمبے عرصے کے لئے رہنا اب یقینی ہے ۔جن بنیادو ں پر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا ہے و ہ ختم ہونے کی بجائے مزیدگہری ہو رہی ہیں ۔پاکستان زیادہ قوت سے چین کے قریب اور امریکہ سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے تو یہ سوال عمران خان سے بھی پوچھا تھاکہ ان کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں اصل رکاوٹ چین کے ساتھ بہت زیادہ قربت تو نہیں ۔عمران خان نے اس کے جواب میں پاکستان اور چین کے تعلقات کی گہرائی کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ کی جنگ میں شراکت دار بن کر پاکستان میں جو تخریب ہوئی تھی اسے تعمیر میں بدلنے کے چین ہی آگے آیا۔شوکت ترین نے علاقائی سیاست کی زد میں آنے کی جو بات کی تھی اس کا تعلق بھی اسی حقیقت سے ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ملک ہر فورم پر پاکستان کی کلائی مروڑنے کی کوششیں جا ری رکھیں گے ۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہوں یا ایف اے ٹی ایف کی سیاست بازیاں ،عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کیس کی شنوائی اور ایک مسلمہ جاسوس پر مہربانیاں ہوںیا یورپی ملکوں میں سر ی واستو گروپ کے نام سے جھوٹ کی فیکٹریاں ،یہ سب پاکستان کو فکس اپ کرنے کی کوششیں ہیں ۔پاکستان کو اب مغرب کے اس معاندانہ سلوک کا سامنا مختلف حوالوں سے مختلف فورمز پر کرنا پڑے گا۔اس کے لئے ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا ہوگا ۔اس رویے کے حامل مغربی ملکوں اور مغربی اثر رسوخ کے حامل اداروں سے کشمیر سمیت کسی خیر کی توقع نہیں ۔وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بات بھی کریں گے تو اس کا مطلب بھارتی نکتہ نظر سے مسئلے کا حل ہوگا ۔پاکستان کو اس مغرب کے ساتھ روابط برقرار تو رکھنے چاہیں مگر ان سے کسی اچھائی کی توقع عبث ہے۔

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے