پشاور دھماکے میں اہم پیش رفت

پشاور قصہ خوانی بازار دھماکے کے مزید 6زخمی توڑ گئے ہیں جس کے بعد شہداء کی تعداد 63 ہو گئی ہے، لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں 37زخمی زیر علاج ہیں، جن میں سے 4افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے نادرا کی مدد سے خود کش بمبار کی شناخت اور سہولت کاروں کے سراغ کا دعویٰ کیا ہے۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے 48گھنٹوں میں حملہ آوروں کا پورا نیٹ ورک میڈیا کے سامنے پیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ تحقیقاتی ادارے اور خیبر پختونخوا کی پولیس پشاور دھماکے میں ملوث تینوں کرداروں کی شناخت کر چکی ہے۔ دھماکے کے چند گھنٹوں کے بعد حملہ آور کا نیٹ ورک پکڑ لینا سیکورٹی اداروں کی اہم پیش رفت ہے۔ تاہم ارباب اختیار اور سیکورٹی اداروں کو یہ جان لینا چاہئے کہ امن و امان کا قیام اب بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس سے پہلے قیام امن کا جو دعویٰ کیا جاتا رہا ہے، وہ وقتی ثابت ہوا ہے ، پشاور دھماکے نے ہمیں ایک بار پھر سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ دیرپا امن ہی مسئلے کا مستقل حل ہے۔
نائن الیون کے بعد سے پاکستان کو شدید سیکورٹی مسائل کا سامنا ہے، پاکستان نے امریکی جنگ میں نان نیٹو اتحادی بننے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ قیام امن کے لیے 2004ء سے 2022ء تک 28ہزار سے زائد عام شہری اور سیکورٹی اہلکار دہشت گردی کا ایندھن بن چکے ہیں، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ خیبر پختونخوا کی رپورٹ کے مطابق ملکی خزانے کو 150 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔ 30لاکھ سے افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، سینکڑوں سکول تباہ ہو گئے، 6کروڑ سے زائد افراد خطِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، یہ امریکی جنگ کا شاخسانہ ہے کہ دو عشرے گزرنے کے باوجود آج بھی حالات نہیں سنبھل رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل پاکستان کو پرامن ملک تصور کیا جاتا تھا، پرویز مشرف کے دور اقتدار سے لے کر مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت افواج پاکستان نے دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی، مسلم لیگ ن کے دور میں شروع کردہ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد سے دہشت گردوں کے سلیپنگ سیلز کو مہارت سے ختم کر دیا گیا ، ان آپریشنز کا نتیجہ ہے کہ آج وطن عزیز میں کوئی ممنوعہ علاقہ نہیں ہے، ہر جگہ افواج پاکستان تعینات ہے جو شہریوں کی حفاظت کی ضامن ہے، چونکہ افواج پاکستان سرحدوں کی محافظ ہے اور ان کی تربیت بھی انہی خطوط پر ہوئی ہے تو اندرونی مسائل پر قابو پانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا ، دیکھا جائے تو افواج پاکستان نے اپنی ذمہ داری احسن انداز میں پوری کر دی ہے، اندرونی سطح پر امن کا قیام پولیس کے فرائض میں شامل ہے، ایکشن پلان کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کی دو کیٹگری میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جب افواج پاکستان نے دہشت گردی پر قابو لیا تھا تو انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوشش کی جانی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا اور دہشتگری کے خاتمے سے ہی سمجھ لیا گیا کہ مسئلہ حل ہو چکا ہے ، یوں انتہا پسندانہ ذہن نے دوبارہ پنجے گاڑھنا شروع کر دیے اور کمزور ہدف کو دیکھتے ہوئے انتہا پسند دوبارہ دھماکے پر اتر آئے ہیں۔ اہل اقتدار اور اہل سیاست خود اعتراف کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعض حصوں پر عمل نہیں ہو سکا ہے، انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے انسداد دہشتگردی کے جن اداروں کی تشکیل کی بات کی گئی تھی، نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات میں سے جو افواج پاکستان سے متعلق تھیں ان پر پوری طرح عمل ہو چکا ہے مگر جو اہل سیاست سے متعلق تھیں ان پر عمل ہونا باقی ہے۔ اہل سیاست کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان بڑی آبادی کا حامل ملک ہے جس کے شہر گنجان آباد ہیں، یہاں پر انتہاپسند بہ آسانی اپنے ٹارگٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔ حکومت کے لیے ہر گلی ،کوچے اور بازار میں سیکورٹی اہلکار تعینات کرنا ممکن نہیں، نہ ہی ہمارے وسائل اور معیشت اس قدر سیکورٹی کے متحمل ہو سکتے ہیں، مگر عوامی حمایت سے ہم انتہا پسندوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے عوام کو تربیت دینے کی ضرورت ہے، یوں عوام پولیس اہلکاروں کے مدد گار بن جائیں گے، اس ماڈل میں کامیابی اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ حملہ آور کہیں نہ کہیں رہائش اختیار کریں گے اور اس کے اڑوس پڑوس کے لوگ ان کی حرکات و سکنات سے واقف ہوںگے، مشکوک حرکات کی صورت میں عوام پولیس کو آگاہ کریں گے لیکن اس مقصد کے لیے پولیس کو عوام کے لیے خوف کی علامت بننے کی بجائے دوستانہ رویہ اپنانا ہو گا، کیونکہ جب دشمن آپ کے اندر چھپا بیٹھا ہو تو اس کا مقابلہ عوامی حمایت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا