مارچ میں مارچ

مارچ کا مہینہ عموماً موسم بہار کی خبر دے کرفضائوں کو معطر کرتے ہوئے ہرطرف اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ لیکن مملکت خداداد میں اس مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ مہینہ سالہا سال سے ہمارے سیاسی میدان کے چھپے سیاسی موتیوں کو بھی اپنے سیاسی رنگ بکھیرنے کا موقع فراہم کردیتا ہے۔ یہ مہینہ سیاسی اداکاروں کے ساتھ ساتھ سماجی میدان کے شاہ سواروں ، خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں اور خصوصاعورت مارچ کے سپہ سالاروں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر میرا جسم میری مرضی کی پر شکوہ نعروں کے ساتھ طبع آزمائی کا بھی موقع فراہم کرتا ہے۔ آٹھ مارچ کو ہی مذہبی جما عتوں اور تنظیموں کی جانب سے حیا مارچ کا پروگرام طے ہوتا ہے ۔ تئیس مارچ کو سرکاری مارچ ہوتا ہے جس کے بعد ڈی چوک کو سستا نے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس بار سیاسی میدان کا مرد میدان بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کا علم تھامے براستہ پنجاب آٹھ مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو پنجاب کے مختلف راستوں سے ہوتا ہو ااپنے قافلے میں شامل جیالوں کا لہو گرماتا ہوا اس امید کے ساتھ شہر اقتدار میں براجمان ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گراکر ہی واپس جائیگا۔ انہوں نے اپنے حساب سے حکومت کو پانچ دن کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر گھر چلاجائے ورنہ ان کے جیالے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کردینگے۔جوابی وار کے طور پر پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اپنے ہراول دستے کے ساتھ سندھ حکومت سے سندھ کے عوام کے حقوق مانگنے سندھ حقوق مارچ پر سندھ کی سڑکیں ناپ رہے ہیں۔ بلا ول بھٹو کا قافلہ آٹھ مارچ کو وفاقی دارلحکومت پہنچے گا۔ ٹھیک اسی دن جب عورت مارچ کے سپاہی اسلام آباد کی سڑکوں پر میرا جسم میری مرضی کے فلک بوس نعرے لگارہے ہونگے۔ ایک طرف میرا جسم میری مرضی کے نعروں سے اسلام آباد کی فضائیں گونجیں گی اور دوسری طرف سوشلزم کے علمبردار جب شہر اقتدار میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈیرے جمائیں گے تو پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نام پر سیاست کرنیوالے مولانا فضل الرحمن اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ پنڈال میں نمودار ہوکر عوامی مجمع میں اپنی شعلہ بیانی کے نشتر برسائیں گے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق
نے فیصل آباد میں عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ سٹیٹس کو کی جماعتیں ہیں اور انکی جماعت اسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت نے مہنگائی میں پچاس فی صد کمی نہیں کی تو وہ لوگوں کا ایک جم غفیر لے کراسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ اسی سیاسی گرما گرمی کی خبریں سن کر جہانگیر ترین کی ناساز طبیعت میں فوراً پھرتی پیدا ہوئی اور سارے ٹیسٹ خیر سے درست آگئے۔ موصوف پہلی فرصت میں اسلام آباد کے لئے اڑان بھرنے کو تیا ر ہیں ۔ اسی دوران پاکستان کی پوری سیاسی قیادت کو یاد آیا کہ چوہدری شجاعت حسین کی طبیعت بھی ناساز ہے۔ لہٰذا سارے سیاسی پارٹیوں کی قیادت ایک ایک کرکے ملک کے بہترین مفاد میں ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر بزرگ سیاست دان کی دعائیں لینے اسکے گھر حاضر ہو رہے
ہیں۔ ایک طرف چوہدری پرویز الٰہی کی چاندی نکل آئی تو دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ موصوف کو یہ غم کھائے جارہاہے کہ کہیں حکومت اور حزب اقتدار کی اس جنگ میں انہیں قربانی کا بکرا تو نہیں بنا یا جارہا۔ دوسری طرف حکومت کی اتحادی پارٹی ایم کیو ایم اس پوری سیاسی پیش رفت کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کی قیادت اپنے پتے پوری ہوشمندی سے کھیلے گی جس کے لئے وہ آخری دن تک انتظار کرے گی۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گی، یہ تو آئندہ چند روز میں پتہ چل ہی جائیگا لیکن کم از کم اتنا ضرور ہے کہ اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے گی پسنا بیچارے عوام نے ہی ہیں۔ مسند اقتدار پر عمران خان براجمان ہوں یا نواز شریف، وزیراعظم ہاوس سے جئے بھٹو کی صدائیں بلند ہوں یا مولانا فضل الرحمن کے مرید زندہ ہے جمیعت زندہ ہے کے نعرے بلند کریں ، عوام کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے عوام کی امیدوں کا خون کیا ہے۔ پارٹی کی سیاسی قیادت نے عوام سے کئے گئے وعدے وفا نہیں کئے۔ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا لیکن دوسری طرف عوام اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے پاس بھی عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے اندر یا باہرکوئی تبدیلی آتی بھی ہے تو صرف چہرے کی تبدیلی سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی قیادت تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کا شوق ضرور پورا کرلیں لیکن کیا ان کے پاس کوئی متبادل پروگرام موجود ہے؟ کیا انہوں نے اس ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لئے کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا